جلوہ گاہِ نازِ جاناں جب مِرا دل ہو گیا
سامنا فانی مجھے دل کا بھی مشکل ہو گیا
مژدۂ تسکیں سے بے تابی کے قابل ہو گیا
دل پہ جب تیری نگاہیں جم گئیں، دل ہو گیا
کر کے دل کا خون کیا بے تابیاں کم ہو گئیں
سن کے تیرا نام آنکھیں کھول دیتا تھا کوئی
آج تیرا نام لے کر کوئی غافل ہو گیا
طور نے جل کر ہزاروں طور پیدا کر دیے
ذرہ ذرہ میرے دل کی خاک کا دل ہو گیا
موت آنے تک نہ آئے، اب جو آئے ہو تو ہائے
زندگی مشکل ہی تھی، مرنا بھی مشکل ہو گیا
دردِ فرقت کی خلش وابستۂ انفاس تھی
مدعائے زندگانی مر کے حاصل ہو گیا
دل سراپا درد تھا وہ ابتدائے عشق تھی
انتہا یہ ہے کہ فانیؔ درد اب دل ہو گیا
فانی بدایونی
No comments:
Post a Comment