گماں تو تھا کہ ایسا تھا، نہیں تھا
تِرا غم جان سے پیارا نہیں تھا
نہ جانے وہ خفا تھا یا نہیں تھا
کسی صورت سے کچھ کھلتا نہیں تھا
کتابِ خیر میں کیا کیا، نہیں تھا
سند ہے گفتہ و ناگفتہ اس کا
بدلنے والا یہ سکہ،نہیں تھا
میں اپنے آپ ہی سے باخبر ہوں
قلم پر اس کا کب قبضہ نہیں تھا
کرانا ہی پڑا اپنا تعارف
اب اتنا انکسار اچھا نہیں تھا
جدھر دیکھو اُدھر پَو پھٹ رہی ہے
تسلط کچھ بھی راتوں کا نہیں تھا
دکن میں خیرؔ ہم تو ہیں سلامت
یہاں ویسے بھی سناٹا نہیں تھا
رؤف خیر
No comments:
Post a Comment