اس مہ جبیں سے آج ملاقات ہو گئی
بے درد آسمان! یہ کیا بات ہو گئی
آوارگانِ عشق کا مسکن نہ پوچھیے
پڑ رہتے ہیں وہیں پہ جہاں رات ہو گئی
ذکرِ شبِ وصال ہو کیا، قصہ مختصر
مسجد کو ہم چلے گئے مستی میں بھول کر
ہم سے خطا یہ پیرِ خرابات ہو گئی
پچھلے غموں کا ذکر ہی کیا، جب وہ مل گئے
اے آسماں!تلافئ مافات ہو گئی
زاہد کو زندگی ہی میں کوثر چکھا دیا
رِندوں سے آج یہ بھی کرامات ہو گئی
بے چین رکھنے والے پریشاں ہوں خود نہ کیوں
آخر کو تیری زلف مری رات ہو گئی
جھولا جھلائیں چل کے حسینوں کو باغ میں
گجرات میں سنا ہے کہ برسات ہو گئی
کیا فائدہ اب اختر اگر پارسا بنے
جب ساری عمر نذرِ خرابات ہو گئی
اختر شیرانی
No comments:
Post a Comment