یہ عاشقی بھی جرم میں شامل اگر نہ ہو
تعزیر کیوں ہو شہر میں قاتل اگر نہ ہو
کوئی شبِ سیاہ میں کیسے سفر کرے
تاریکیوں میں روشنی حائل اگر نہ ہو
منزل کی جستجو میں بھٹکنا اِدھر اُدھر
طوفاں میں ایسی ناؤ کا بچنا محال ہے
ڈوبے گی وہ قریب ہی ساحل اگر نہ ہو
دنیا کو رشکِ خلد بنا دیں یہ عقلمند
دنیا میں اتنی کثرتِ جاہل اگر نہ ہو
کیا حال ہو گا ایسے گلستاں کا اے خدا
ناظم ہی اعتبار کے قابل اگر نہ ہو
کرتا نہیں میں فکرِ سخن سے کوئی گلہ
دل میرا شعر گوئی پہ مائل اگر نہ ہو
منزل رسا نہ ہو گا کبھی ایسا رہنما
وہ آشنائے جادۂ منزل اگر نہ ہو
اشعار اپنے کس کو سنائیں گے اپنے ہم
شعر و ادب کی ایک بھی محفل اگر نہ ہو
انساں کرے خطا پہ خطا نورؔ کس لئے
وہ مقصدِ حیات سے غافل اگر نہ ہو
نور سہارنپوری
No comments:
Post a Comment