Sunday, 30 April 2017

یہ عاشقی بھی جرم میں شامل اگر نہ ہو

یہ عاشقی بھی جرم میں شامل اگر نہ ہو
تعزیر کیوں ہو شہر میں قاتل اگر نہ ہو
کوئی شبِ سیاہ میں کیسے سفر کرے
تاریکیوں میں روشنی حائل اگر نہ ہو
منزل کی جستجو میں بھٹکنا اِدھر اُدھر
لازم ہے یہ تعیّنِ منزل اگر نہ ہو
طوفاں میں ایسی ناؤ کا بچنا محال ہے
ڈوبے گی وہ قریب ہی ساحل اگر نہ ہو
دنیا کو رشکِ خلد بنا دیں یہ عقلمند
دنیا میں اتنی کثرتِ جاہل اگر نہ ہو
کیا حال ہو گا ایسے گلستاں کا اے خدا
ناظم ہی اعتبار کے قابل اگر نہ ہو
کرتا نہیں میں فکرِ سخن سے کوئی گلہ
دل میرا شعر گوئی پہ مائل اگر نہ ہو
منزل رسا نہ ہو گا کبھی ایسا رہنما
وہ آشنائے جادۂ منزل اگر نہ ہو
اشعار اپنے کس کو سنائیں گے اپنے ہم
شعر و ادب کی ایک بھی محفل اگر نہ ہو
انساں کرے خطا پہ خطا نورؔ کس لئے
وہ مقصدِ حیات سے غافل اگر نہ ہو

نور سہارنپوری

No comments:

Post a Comment