بہت خلوص بھی سُود و زیاں تک آتا ہے
ہو چاہے کوئی تعلق، یہاں تک آتا ہے
کئی شکوک مِرے دل میں بیٹھ جاتے ہیں
سوال اٹھتا ہے، اٹھ کر زباں تک آتا ہے
پلک جھپکتا ہے دیوانہ تجھ کو دیکھتے ہی
جو زہر لہجوں کا دل میں اتار لیتا ہوں
اتر کے دل سے رگ و پے میں، جاں تک آتا ہے
وہ چیخ، جس میں سنائی دے چیخ کی آواز
وہ خوف، خطرہ جب اپنے نشاں تک آتا ہے
یہاں تک آتی ہے آواز اس کے رونے کی
تمہیں پتا ہے، سمندر یہاں تک آتا ہے
پھر اس آگے سے، اس داستان میں تم ہو
ہمارا نام تو بس درمیاں تک آتا ہے
مِرے الاؤ کا عمارؔ وہ طواف کریں
جنہیں خبر ہو کہ شعلہ کہاں تک آتا ہے
عمار اقبال
No comments:
Post a Comment