دل و دماغ کو آرام بھی نہیں ملتا
وظیفہ خوار کو اب کام بھی نہیں ملتا
نہ دن گزرتا ہے اپنا نہ رات کٹتی ہے
وہ ملنے والا سرِ شام بھی نہیں ملتا
یہ نرم چارہ نہیں، سخت آزمائش ہے
خدا کو گھول کے کچھ لوگ پی گئے کب کے
ہمیں تو کوچۂ اصنام بھی نہیں ملتا
کسی سے کیسے کہوں یہ کتاب میری ہے
کسی ورق پہ مِرا نام بھی نہیں ملتا
خدا سے خیرؔ ہوئیں کب کی مسجدیں خالی
ایودھیا میں کہیں رام بھی نہیں ملتا
رؤف خیر
No comments:
Post a Comment