میری نظر کا مدعا اس کے سوا کچھ بھی نہیں
اس نے کہا کیا بات ہے؟ میں نے کہا کچھ بھی نہیں
ہر ذہن کو سودا ہوا،۔ ہر آنکھ نے کچھ پڑھ لیا
لیکن سرِ قرطاسِ جاں میں نے لکھا کچھ بھی نہیں
دیوارِ شہرِ عصر پر کیا قامتیں چسپاں ہوئیں
جس سے نہ کہنا تھا کبھی جس سے چھپانا تھا سبھی
سب کچھ اسی سے کہہ دیا مجھ سے کہا کچھ بھی نہیں
چلنا ہے راہِ زیست میں اپنے ہی ساتھ ایک عمر تک
کہنے کو ہے اک واقعہ،۔ اور واقعہ کچھ بھی نہیں
اب کے بھی اک آندھی چلی اب کے بھی سب کچھ اڑ گیا
اب کے بھی سب باتیں ہوئیں، لیکن ہوا کچھ بھی نہیں
دل کو بچانے کے لیے جاں کو سپر کرتے رہے
لوگوں سے آخر کیا کہیں شہپر بچا کچھ بھی نہیں
شہپر رسول
No comments:
Post a Comment