میاں، دیکھا نہیں جاتا، کریں کیا دیکھ لیتے ہیں
یہ دنیا جو دکھاتی ہے تماشا دیکھ لیتے ہیں
وہی منظر، وہی مایوس چہرے گھر سے باہر تک
ہے عادت دیکھ لینے کی لہٰذا دیکھ لیتے ہیں
جو بس چلتا تو آنکھوں کو کبھی رسوا نہ کرتے ہم
فقیرانِ محبت ہر جگہ ٹھہرا نہیں کرتے
سکونت کرنے سے پہلے علاقہ دیکھ لیتے ہیں
مسافر ہیں، مگر ایسے مسافر ہم نہیں ہیں جو
سفر کرنے سے پہلے استخارہ دیکھ لیتے ہیں
اجازت دے ہی دی ہے جب انہوں نے لب کشائی کی
ذرا سچ بول کر ہم بھی نتیجہ دیکھ لیتے ہیں
میاں، اب تو ہمارے سر پہ بھی اُگنے لگی چاندی
ہمیں کیا دن دکھاتا ہے بڑھاپا دیکھ لیتے ہیں
فراغؔ اسکے شکنجے میں ہماری جان ہے جب تک
کریں کیا زندگی کا ہر ڈرامہ دیکھ لیتے ہیں
فراغ روہوی
No comments:
Post a Comment