کیسے کوئی شمار کرے آدمی کے روپ
ظلمت میں ڈھل رہے ہوں جہاں روشنی کے روپ
اس انقلابِ دہر پہ حیرت ہو کس لیے
پردے میں دوستی کے ہیں اب دشمنی کے روپ
خود دیکھ لو کے رنگ بدلتے ہیں کس قدر
ان سے ملے تو یہ نہ سمجھ پائے آج تک
یہ ہیں خوشی کے روپ کہ ہیں بر ہمی کے روپ
خواب و خیال بن کے دُکھاتے ہیں دل کو وہ
آتے ہیں یاد جب بھی گذشتہ صدی کے روپ
’’مسجد ہو، خانقاہ کہ ہو مدرسہ کوئی‘‘
یہ آگہی کے روپ ہیں یا گمرہی کے روپ
اے نورؔ احتیاط ضروری ہے اس لیے
پردے میں رہبری کے ہیں اب رہزنی کے روپ
نور سہارنپوری
No comments:
Post a Comment