Sunday 30 April 2017

کیسے کوئی شمار کرے آدمی کے روپ

کیسے کوئی شمار کرے آدمی کے روپ
ظلمت میں ڈھل رہے ہوں جہاں روشنی کے روپ
اس انقلابِ دہر پہ حیرت ہو کس لیے
پردے میں دوستی کے ہیں اب دشمنی کے روپ
خود دیکھ لو کے رنگ بدلتے ہیں کس قدر
میں کیا بتاؤں کتنے ہیں کس آدمی کے روپ
ان سے ملے تو یہ نہ سمجھ پائے آج تک
یہ ہیں خوشی کے روپ کہ ہیں بر ہمی کے روپ
خواب و خیال بن کے دُکھاتے ہیں دل کو وہ
آتے ہیں یاد جب بھی گذشتہ صدی کے روپ
’’مسجد ہو، خانقاہ کہ ہو مدرسہ کوئی‘‘
یہ آگہی کے روپ ہیں یا گمرہی کے روپ
اے نورؔ احتیاط ضروری ہے اس لیے
پردے میں رہبری کے ہیں اب رہزنی کے روپ

نور سہارنپوری

No comments:

Post a Comment