Sunday 30 April 2017

لب اگر کھول دوں اک طرفہ تماشا ہو جائے

لب اگر کھول دوں، اک طرفہ تماشا ہو جائے
جانے پھر کون تری بزم میں رسوا ہو جائے
بے نیازِ حرم و دیر ہے سجدہ میرا
میں جہاں سر کو جھکا دوں وہیں کعبہ ہو جائے
ظلمتِ شب سے ہے بے زار نظامِ عالم
’’تو جو زلفوں کو ہٹا دے تو سویرا ہو جائے‘‘
زندگی اپنی بھی ہو جائے مکمل اے دوست
کاش تجھ کو بھی جو احساسِ تمنا ہو جائے
یہ تو توہینِ محبت ہے محبت کی قسم
نام سے میرے کوئی بزم میں رُسوا ہو جائے
مِنّتِ غیر بھی کر لوں گا میں تیری خاطر
تیری غیرت کو اگر یہ بھی گوارا ہو جائے
ہوش باقی نہیں، لب خشک ہیں پھر بھی اے فوقؔ
کچھ بھی ہو آج تو اظہارِ تمنا ہو جائے

فوق کریمی

No comments:

Post a Comment