Friday 21 April 2017

کیا اداسی ہے کہ رونا بھی نہیں کام آتا

کیا اداسی ہے کہ رونا بھی نہیں کام آتا
ایسے سناٹے میں سونا بھی نہیں کام آتا
اک لہو رنگ میرے خامۂ جاں پر ہے جسے
جھاڑنا بھی نہیں، دھونا بھی نہیں کام آتا
جان لیجے کہ یہ تقدیر کے بکھرے ہوئے کام
ایسے ہیں جن کو پرونا بھی نہیں کام آتا
پا لیا ایک بدن، پھر بھی حقیقت یہ ہے
کہ ترے جسم کو کھونا بھی نہیں کام آتا
میں کہ اک دائرۂ کار میں پھینکا گیا ہوں
ایسے لوگوں کے تو کونہ بھی نہیں کام آتا
سب سے بیزار ہوئی جاتی ہے ہستی میری
یعنی اکثر ترا ہونا بھی نہیں کام آتا
شبنمی خواب ان آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں
اور راتوں کو بھگونا بھی نہیں کام آتا

تصنیف حیدر

No comments:

Post a Comment