کیا اداسی ہے کہ رونا بھی نہیں کام آتا
ایسے سناٹے میں سونا بھی نہیں کام آتا
اک لہو رنگ میرے خامۂ جاں پر ہے جسے
جھاڑنا بھی نہیں، دھونا بھی نہیں کام آتا
جان لیجے کہ یہ تقدیر کے بکھرے ہوئے کام
پا لیا ایک بدن، پھر بھی حقیقت یہ ہے
کہ ترے جسم کو کھونا بھی نہیں کام آتا
میں کہ اک دائرۂ کار میں پھینکا گیا ہوں
ایسے لوگوں کے تو کونہ بھی نہیں کام آتا
سب سے بیزار ہوئی جاتی ہے ہستی میری
یعنی اکثر ترا ہونا بھی نہیں کام آتا
شبنمی خواب ان آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں
اور راتوں کو بھگونا بھی نہیں کام آتا
تصنیف حیدر
No comments:
Post a Comment