Sunday 30 April 2017

آنکھیں کبھی زلفیں کبھی لب دیکھ رہے ہیں

آنکھیں کبھی زلفیں، کبھی لب دیکھ رہے ہیں
آئینے میں گزری ہوئی شب دیکھ رہے ہیں
جب تک تھے مرے سامنے آنکھوں میں حیا تھی
جاتے ہوئے مڑ مڑ کے وہ اب دیکھ رہے ہیں
اللہ بچائے نگہِ بد سے کسی کی
محفل میں انہیں آج تو سب دیکھ رہے ہیں
اک ہم ہی نہیں بزم میں بے تاب و مذبذب
’’ہم حال تمہارا بھی عجب دیکھ رہے ہیں‘‘
نظریں تو ہیں دونوں کی مگر فرق ہے اتنا
وہ صبح، تو ہم ظلمتِ شب دیکھ رہے ہیں
مے خانے میں مے خوار طلبگار ہیں مے کے
اور ہم ہیں کہ ان سب کی طلب دیکھ رہے ہیں
کل نام و نسب فوقؔ مٹایا تھا جنہوں نے
کیوں آج وہی نام و نسب دیکھ رہے ہیں

فوق کریمی

No comments:

Post a Comment