ابرو ہے کعبہ، آج سے یہ نام رکھ دیا
ہم نے اٹھا کے طاق پہ اسلام رکھ دیا
نشے میں جا گرا جو میں مسجد میں سر کے بَل
زاہد نے مجھ پہ سجدے کا الزام رکھ دیا
جھجکا وہ خوف کھا کے تو میں نے تڑپ کے خود
دلچسپ نام سن کے لگے مانگنے حسیں
کس نے ذرا سے خون کا دل نام رکھ دیا
جُوڑا جو بندھ گیا تو نئے دل کہاں پھنسیں
تُو نے ادھر لپیٹ کے کیوں دام رکھ دیا
آنکھ اس ادا سے اس نے دکھائی کہ میں نے شوقؔ
چپکے سے اپنا مَے کا بھرا جام رکھ دیا
شوق قدوائی
No comments:
Post a Comment