غموں کی رات ہے اور اتنی مختصر بھی نہیں
بہت دنوں سے تمہاری کوئی خبر بھی نہیں
اے شہرِ دل! تِری گلیوں میں خاک اڑتی ہے
یہ کیا ہوا کہ یہاں کوئی نوحہ گر بھی نہیں
تُو میرے ساتھ نہیں ہے تو سوچتا ہوں میں
میں اپنا درد کسی اور سے کہوں کیسے
مِرے بدن پہ کوئی زخم معتبر بھی نہیں
چلاؤ تیغ کہ اب اس میں سوچنا کیا ہے
مِرے حریف مِرے ہاتھ میں سپر بھی نہیں
ہیں تیری فتح میں اب بھی شکست کے امکان
مِری شکست میں اندیشۂ ظفر بھی نہیں
جو واشگاف کرے میرے رمز کو شاہدؔ
سخنوروں میں کوئی ایسا دیدہ ور بھی نہیں
شاہد کمال
No comments:
Post a Comment