کچھ تو دعائے نیم شبی کا اثر ہوا
روشن کسی کے آنے سے دل کا نگر ہوا
فرقت کی شب نے جس کو جلایا تھا ایک عمر
وہ اک دِیا 🪔 بھی آج سپردِ سحر ہوا
جس کو یہ زعم تھا کہ بھلا دے گا وہ مجھے
میں بھی تو اس کے ہجر میں روتا رہا بہت
اس دل کا حال اس کے ہی غم میں دِگر ہوا
منہ پھیر کے گزر گئے اک دوسرے سے ہم
طے اس طرح بھی زیست کا اکثر سفر ہوا
کس سے لپٹ کے روئیں سنائیں کسے یہ بات
اس شہر میں جو عیب ہے، کارِ ہنر ہوا
فکرِ معاش لے گئی ریحان کُو بہ کُو
میں گوشہ گیر شخص بھی کیا در بدر ہوا
ریحان اعظمی
No comments:
Post a Comment