Thursday 27 April 2017

کچھ تو دعائے نیم شبی کا اثر ہوا

کچھ تو دعائے نیم شبی کا اثر ہوا
روشن کسی کے آنے سے دل کا نگر ہوا
فرقت کی شب نے جس کو جلایا تھا ایک عمر
وہ اک دِیا 🪔 بھی آج سپردِ سحر ہوا
جس کو یہ زعم تھا کہ بھلا دے گا وہ مجھے
اک پل مِرے بغیر نہ اس سے بسر ہوا
میں بھی تو اس کے ہجر میں روتا رہا بہت
اس دل کا حال اس کے ہی غم میں دِگر ہوا
منہ پھیر کے گزر گئے اک دوسرے سے ہم
طے اس طرح بھی زیست کا اکثر سفر ہوا
کس سے لپٹ کے روئیں سنائیں کسے یہ بات
اس شہر میں جو عیب ہے، کارِ ہنر ہوا
فکرِ معاش لے گئی ریحان کُو بہ کُو
میں گوشہ گیر شخص بھی کیا در بدر ہوا

ریحان اعظمی

No comments:

Post a Comment