Thursday 27 April 2017

میں جو رویا خلق کی نظروں سے بادل گر گیا

میں جو رویا خلق کی نظروں سے بادل گر گیا
اس کی ساری آبرو پر آج پانی پھر گیا
دل میں وہ مجھ کو برا سمجھا مگر سمجھا تو کچھ
ہوں رسا اتنا کہ میں نظروں سے تا خاطر گیا
کس قدر بیدل ہوا میں جا کے اس بدخو کے پاس
اس طرح کھویا کہ گویا کچھ بغل سے گر گیا
رہ گیا حیرت کے مارے بن کے پتلی دم بخود
سامنے اس شوخ کی آنکھوں کے جو ساحر گیا
یوں بلائیں گردِ سَر ہیں، بادل جیسے سر کے گرد
کیا بلاؤں میں تِرے بالوں کا عاشق گِھر گیا
بدگمانی سے ہوا کیا کیا نہ سَر گرداں خیال
رات کو کس کس کے گھر بن کر مِرا مخبر گیا
کل نکالا جا چکا اے شوقؔ اس کی بزم سے
آج کیوں اپنا سا منہ لے  کر وہاں تُو پھر گیا

شوق قدوائی

No comments:

Post a Comment