میں جو رویا خلق کی نظروں سے بادل گر گیا
اس کی ساری آبرو پر آج پانی پھر گیا
دل میں وہ مجھ کو برا سمجھا مگر سمجھا تو کچھ
ہوں رسا اتنا کہ میں نظروں سے تا خاطر گیا
کس قدر بیدل ہوا میں جا کے اس بدخو کے پاس
رہ گیا حیرت کے مارے بن کے پتلی دم بخود
سامنے اس شوخ کی آنکھوں کے جو ساحر گیا
یوں بلائیں گردِ سَر ہیں، بادل جیسے سر کے گرد
کیا بلاؤں میں تِرے بالوں کا عاشق گِھر گیا
بدگمانی سے ہوا کیا کیا نہ سَر گرداں خیال
رات کو کس کس کے گھر بن کر مِرا مخبر گیا
کل نکالا جا چکا اے شوقؔ اس کی بزم سے
آج کیوں اپنا سا منہ لے کر وہاں تُو پھر گیا
شوق قدوائی
No comments:
Post a Comment