ہے فصلِ گل تو دل میں اتر جانا چاہیے
ہر سمت خوشبوؤں کو بکھر جانا چاہیے
راہِ وفا میں جاں سے گزر جانا چاہیے
جب یہ نہ ہو تو شرم سے مر جانا چاہیے
گرداب سے بھی صاف گزر جانا چاہیے
چلئے جدھر بھی چلنا ہو، لیکن کبھی کبھی
سن کر پکار دل کی ٹھہر جانا چاہیے
جس سمت جا کے لوگ کبھی لوٹتے نہیں
دل کہہ رہا ہے آج ادھر جانا چاہیے
دیکھے سے جسکے اور بھی بڑھتا ہے اضطراب
اس کی گلی میں شام و سحر جانا چاہیے
کچھ کم نہیں ہے لذتِ آوارگی، مگر
حالات کہہ رہے ہیں کہ گھر جانا چاہیے
ہر گام پر اجل کا گزرنے لگے گماں
اتنا بھی آدمی کو نہ ڈر جانا چاہیے
اب وہ کشیدگی ہے نہ پہلی سی دوریاں
پھر تو تمام زخموں کو بھر جانا چاہیے
آتا ہے راس مۓ کدہ جب دل کو اے فراغؔ
مجھ ادھر نہیں تو کدھر جانا چاہیے؟
فراغ روہوی
No comments:
Post a Comment