آئینہ عکسِ رخِ یار کے آ جانے سے
دمک اٹھا ہے گرفتار کے آ جانے سے
یک بیک کیسے بدلنے لگے منظر دیکھو
اک ذرا گرمئ رفتار کے آ جانے سے
وہی محفل ہے مگر ہو گئی کیسی بے رنگ
کہاں رکتی ہے مِری جان مہک پھولوں کی
راستے میں کسی دیوار کے آ جانے سے
ایک برآمدۂ شب میں بھڑکتی مشعل
بھیگنے لگتی ہے بوچھار کے آ جانے سے
ثروت حسین
No comments:
Post a Comment