آج اشکوں کا تار ٹوٹ گیا
رشتۂ انتظار ٹوٹ گیا
یوں وہ ٹھکرا کے چل دیا گویا
ایک کھلونا تھا پیار، ٹوٹ گیا
روئے رہ رہ کر ہچکیاں لے کر
آپ کی بے رخی کا شکوہ کیا
دل تھا نا پائیدار، ٹوٹ گیا
دیکھ لی دل نے بے ثباتئ گل
پھر طلسمِ بہار ٹوٹ گیا
سیفؔ کیا چار دن کی رنجش سے
اتنی مدت کا پیار ٹوٹ گیا
سیف الدین سیف
No comments:
Post a Comment