Wednesday 19 April 2017

چھو لیں گے ہم جب سوچیں گے

چھو لیں گے ہم جب، سوچیں گے
پھول ہیں یا وہ لب، سوچیں گے
پھولوں جیسے لوگ ہیں کیسے
دل ٹوٹے گا تب سوچیں گے
دیکھ رہے تھے کیوں مجھ کو تم
دل ہی دل میں سب سوچیں گے
کیا کیا دنیا سوچ رہی ہے
اس سے ہٹ کر اب سوچیں گے
ہم میں کتنے عیب بھرے ہیں
تنہائی میں اب سوچیں گے
فنکاروں کی اس بستی میں
ہم بھی کوئی کرتب سوچیں گے
رنگ بدلتے شہر میں ہم بھی
جینے کے کچھ ڈھب سوچیں گے
روٹھ نہ جائیں شہر کے حاکم
ہم جیسے یہ کب سوچیں گے
خوش رکھنا ہے آقاؤں کو
یہ اہلِ منصب سوچیں گے
چاند نگر نزدیک بہت ہے
یہ طفلِ مکتب سوچیں گے
میرے پیر ہیں مجھ سے خوش کیوں
سارے ہم مشرب سوچیں گے
شاد فراغؔ اس دور میں کیوں ہے
پل دو پل تو سب سوچیں گے

فراغ روہوی

No comments:

Post a Comment