Wednesday, 5 April 2017

کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے

کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے
کچھ کیا جائے چراغوں کو بجھایا جائے
بھولنا خود کو تو آسان ہے بھلا بیٹھا ہوں
وہ ستمگر جو نہ بھولے سے بھلایا جائے
جسکے باعث ہیں یہ چہرے کی لکیریں مغموم
غیر ممکن ہے کہ منظر وہ دکھایا جائے
شام خاموش ہے اور چاند نکل آیا ہے
کیوں نہ اک نقش ہی پانی پہ بنایا جائے
زخم ہنستے ہیں تو یہ فصل بہار آتی ہے
ہاں اسی بات پہ پھر زخم لگایا جائے

زہرا نگاہ

No comments:

Post a Comment