کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے
کچھ کیا جائے چراغوں کو بجھایا جائے
بھولنا خود کو تو آسان ہے بھلا بیٹھا ہوں
وہ ستمگر جو نہ بھولے سے بھلایا جائے
جسکے باعث ہیں یہ چہرے کی لکیریں مغموم
شام خاموش ہے اور چاند نکل آیا ہے
کیوں نہ اک نقش ہی پانی پہ بنایا جائے
زخم ہنستے ہیں تو یہ فصل بہار آتی ہے
ہاں اسی بات پہ پھر زخم لگایا جائے
زہرا نگاہ
No comments:
Post a Comment