Thursday 27 April 2017

ابتدا سے میں انتہا کا ہوں

ابتدا سے میں انتہا کا ہوں
میں ہوں مغرور اور بلا کا ہوں
تٗو بھی ہے اک چراغِ مہلت شب 
میں بھی جھونکا کسی ہوا کا ہوں
پھینک مجھ پر کمند ناز اپنی 
آج میں ہم سفر صبا کا ہوں
جس میں ملبوس چاند پیکر ہے 
میں بھی تکمہ اسی قبا کا ہوں
مجھ کو اپنا سمجھ رہی ہے تو 
میں کسی اور بے وفا کا ہوں
اس میں میری خطا نہیں کوئی 
مرتکب بس اسی خطا کا ہوں
زندگی میں ابھی سلامت ہوں 
میں اثر تیری بد دعا کا ہوں
مجھ پہ رکھتا ہے تہمت الحاد 
میں بھی بندہ اسی خدا کا ہوں
اجڑے خیموں کا سوگوار ہوں میں
میں عزا دار کربلا کا ہوں
مجھ کو شاہد کمال کہتے ہیں
میں بھی شاعر ہوں اور بلا کا ہوں

شاہد کمال

No comments:

Post a Comment