نہ رہزنوں کو میسر، نہ رہبروں کے پاس
وہ آگہی کہ جو لے جاۓ منزلوں کے پاس
ہر ایک شے سے نمایاں وجود ہے اس کا
نظر سے دور سہی، ہے مگر دلوں کے پاس
کبھی نہ ہوں گے تحفظ پہ شہر کے راضی
نگاہِ شیخِ طریقت سے جو ملا ہم کو
تھا عالموں کے ہی پلّے نہ زاہدوں کے پاس
جدا تو کر دیئے تم نے گل و ثمر ان سے
بچا ہی کیا ہے ان آزردہ ٹہنیوں کے پاس
عجیب قسم کا حاصل انہیں ہے استغناء
نہ جانے کون سی دولت ہے عاشقوں کے پاس
نہ جانے کتنے غریبوں کے گھر ہوۓ مسمار
محل یہ کس نے بناۓ ہیں بستیوں کے پاس
سنیں تو کیسے سنیں ہم اذان کی آواز
عجیب شور ہے گانوں کا مسجدوں کے پاس
کھلے ہیں مجھ پہ کئی اور رنگ لوگوں کے
میں نورؔ جانے لگا جب سے شاعروں کے پاس
نور سہارنپوری
No comments:
Post a Comment