Friday 28 February 2014

جل جانے کی حسرت بھی ہو پانی میں بھی رہنا

جل جانے کی حسرت بھی ہو پانی میں بھی رہنا
کچھ سہل نہیں عہدِ جوانی میں بھی رہنا
یہ کیا کہ رہے تازہ رفاقت کی للک بھی
اور محو کسی یاد پرانی میں بھی رہنا
کردار ہی ایسا تھا کہ اے صاحبِ تمثیل
اچھا نہ لگا ہم کو کہانی میں بھی رہنا

اس کے ہمراہ چلے ہم تو فضا اور لگی

اس کے ہمراہ چلے ہم تو فضا اور لگی
راستے اور لگے، لغزشِ پا اور لگی
سر و پر، پیرہنِ گُل بھی سجے خوب، مگر
یار کے قامتِ زیبا پہ قبا اور لگی
کم تو پہلے بھی نہیں تھا وہ دلآزاری میں
اُس پہ ظالم کو زمانے کی ہَوا اور لگی

لب کشا ہیں لوگ سرکار کو کیا بولنا ہے

لب کُشا ہیں لوگ، سرکار کو کیا بولنا ہے
اب لہو بولے گا، تلوار کو کیا بولنا ہے
بِکنے والوں میں جہاں ایک سے ایک آگے ہو
ایسے میلے میں خریدار کو کیا بولنا ہے
لو چلے آئے عدالت میں گواہی دینے
مجھ کو معلوم ہے کس یار کو کیا بولنا ہے

کون اب قصہ چشم و لب و ابرو میں پڑے

کون اب قصۂ چشم و لب و ابرُو میں پڑے
بارے آرام سے ہیں اپنے ہی پہلُو میں پڑے
عشق نے حُسن کے معیار بدل ڈالے ہیں
یار ابھی تک ہیں اُسی قامت و گیسُو میں پڑے
دیکھ اے صاحبِ انصاف! عدالت اپنی
ہم بھی قاتل کے مقابل ہیں ترازُو میں پڑے

میری تنہائی میں مجھ سے گفتگو کرتا ہے کون

میری تنہائی میں مجھ سے گفتگو کرتا ہے کون
تُو نہیں ہوتا تو میری جستجو کرتا ہے کون 
کس کا خنجر ہے جو کر دیتا ہے سینے کو دو نِیم
پھر پشیمانی میں زخمِ دل رفُو کرتا ہے کون
اِس خرابے میں بگولہ سی پِھرے ہے کس کی یاد
اِس دیارِ رفتگاں میں ہاؤ ہُو کرتا ہے کون

جس طرف جائیں زمانہ روبرو آ جائے ہے

جس طرف جائیں زمانہ روبرو آ جائے ہے
اے خیالِ یار! اگر ایسے میں تُو آ جائے ہے
پھر کوئی چارہ گروں کے ناز اٹھائے کس لئے
وحشیوں کو بھی اگر کارِ رفُو آ جائے ہے
پھر کہاں دنیا جہاں کے تذکرے اِک بار اگر
ذکر تیرا درمیانِ گفتگو آ جائے ہے

وہ یار کسی شام خرابات میں آئے

وہ یار کسی شام خرابات میں آئے
یوں ہو تو مزہ میل ملاقات میں آئے
مت پوچھ کہ ہم کون ہیں یہ دیکھ کہ اے دوست
آئے ہیں، تو کس طرح کے حالات میں آئے
کچھ اور مِلا میرا لہو اپنی حنا میں
تا اور بھی اعجاز تِرے ہاتھ میں آئے

ہم تو خوش تھے کہ چلو دل کا جنوں کچھ کم ہے

ہم تو خوش تھے کہ چلو دل کا جنوں کچھ کم ہے
اب جو آرام بہت ہے، تو سکوں کچھ کم ہے
رنگِ گریہ نے دکھائی نہیں اگلی سی بہار
اب کے لگتا ہے کہ آمیزشِ خوں کچھ کم ہے
اب تِرا ہِجر مسلسل ہے تو یہ بھید کھلا
غمِ دل سے غمِ دنیا کا فسوں کچھ کم ہے

تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے

فلمی  گیت

تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسِیں ہے
نگاہوں میں تُو ہے یہ دل جھومتا ہے
نہ جانے محبت کی راہوں میں کیا ہے
جو تُو ہمسفر ہے تو کچھ غم نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسِیں ہے

آج جانے کی ضد نہ کرو

فلمی گیت

آج جانے کی ضِد نہ کرو
یونہی پہلو میں بیٹھے رہو
ہائے مر جائیں گے، ہم تو لُٹ جائیں گے
ایسی باتیں کیا نہ کرو
آج جانے کی ضِد نہ کرو

رات پھیلی ہے تیرے سرمئ آنچل کی طرح

رات پھیلی ہے تیرے، سُرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے، پاگل کی طرح
خشک پتوں کی طرح، لوگ اُڑے جاتے ہیں
شہر بھی اب تو نظر آتا ہے، جنگل کی طرح
پھر خیالوں میں ترے قُرب کی خوشبو جاگی
پھر برسنے لگی آنکھیں مِری، بادل کی طرح

حضورِ یار بھی آنسو نکل ہی آتے ہیں​

حضورِ یار بھی آنسو نکل ہی آتے ہیں​
کچھ اختلاف کے پہلو نکل ہی آتے ہیں​
مزاج ایک، نظر ایک، دل بھی ایک سہی​
معاملاتِ مَن و تُو نکل ہی آتے ہیں​
ہزار ہم سخنی ہو ہزار ہم نظری​
مقامِ جُنبشِ ابرو نکل ہی آتے ہیں​

لے کے صدیوں کی پیاس جنگل میں

لے کے صدیوں کی پیاس جنگل میں
چاند اترا اداس جنگل میں
کب شبوں کا طلسم ٹوٹے گا
کب کِھلے گی کپاس جنگل میں
لے گئی شہر سے بھگا کے مجھے
خود سے ملنے کی آس جنگل میں

ادھر بھی نگاہ کرم میر خوباں

اِدھر بھی نگاہِ کرم، میرِ خوباں
دو عالم ترے اک تبسم پہ قرباں
تری جوئے رفتار و موجِ تکلم
چہ بادِ بہاری، چہ آہنگِ باراں
تری مستئ چشم و بوئے نفس میں
طلسمِ خرابات و اسرارِ بُستاں

Wednesday 26 February 2014

یہ جو چہروں پہ لئے گرد الم آتے ہیں​

یہ جو چہروں پہ لئے گردِ الم آتے ہیں​
یہ تمہارے ہی پشیمانِ کرم آتے ہیں​
اِتنا کُھل کر بھی نہ رو، جسم کی بستی کو بچا
بارشیں کم ہوں تو سیلاب بھی کم آتے ہیں​
تُو سُنا، تیری مسافت کی کہانی کیا ہے
میرے رَستے میں تو ہر گام پہ خم آتے ہیں​

یہ ہم نے دھوپ جو اوڑھی ہوئی ہے

یہ ہم نے دھوپ جو اوڑھی ہوئی ہے
ہماری چھاؤں چوری ہو گئی ہے
چلو وہ خواب تو بننے لگا ہے
چلو کچھ بات تو آگے بڑھی ہے
ابھی نیچی ہے سطحِ دیدۂ تر
ابھی دریا میں پانی کی کمی ہے

آج کے اس سماج میں بیدل

آج کے اس سماج میں بیدلؔ
یعنی ظلمت کے راج میں بیدلؔ
میرے جیسے مڈل کلاس کے لوگ
دور کے لوگ آس پاس کے لوگ
چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لئے
کبھی کاغذ کبھی خطوں کے لئے

دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا

دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا
وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن
جیسا بھی مِل گیا ہمیں ویسا پہن لیا
فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی
عُریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا

رہنے دے رتجگوں میں پریشاں مزید اسے​

رہنے دے رتجگوں میں پریشاں مزید اُسے​
لگنے دے ایک اور بھی ضربِ شدید اُسے​
جی ہاں وہ اِک چراغ جو سُورج تھا رات کا​
تاریکیوں نے مِل کے کِیا ہے شہید اُسے​
فاقے نہ جُھگیوں سے سڑک پر نکل پڑیں​
آفت میں ڈال دے نہ یہ بحرانِ عید اُسے​

ہم کبھی شہرِ محبت جو بسانے لگ جائیں

ہم کبھی شہرِ محبت جو بسانے لگ جائیں
کبھی طوفان، کبھی زلزلے آنے لگ جائیں
کبھی اک لمحۂ فرصت جو میسّر آ جائے
میری سوچیں مجھے سُولی پہ چڑھانے لگ جائیں
رات کا رنگ کبھی اور بھی گہرا ہو جائے
کبھی آثار سحر کے نظر آنے لگ جائیں

میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ

مجھے سوچنے دے

میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
زندگی تلخ سہی، زہر سہی، سم ہی سہی
درد و آزار سہی، جبر سہی، غم ہی سہی
لیکن اس درد و غم و جبر کی وسعت کو تو دیکھ
ظلم کی چھاؤں میں دم توڑتی خلقت کو تو دیکھ

میں شاعر ہوں مجھے فطرت کے نظاروں سے الفت ہے

میرے گیت  

میں شاعر ہوں ، مجھے فطرت کے نظاروں سے اُلفت ہے
مِرا دل، دشمنِ نغمہ سرائی ہو نہیں سکتا
مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
مِرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا
جواں ہوں میں، جوانی لغزشوں کا ایک طوفاں ہے
مِری باتو‌ں میں رنگِ پارسائی ہو نہیں سکتا

تاج، تیرے لئے اک مظہرِ الفت ہی سہی

تاج محل

تاج، تیرے لئے اِک مظہرِ اُلفت ہی سہی
تُجھ کو اس وادئ رنگیں‌ سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب! کہیں اور مِلا کر مجھ سے
بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ پہ ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ اُلفت بھری رُوحوں کا سفر کیا معنی

یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے

یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے

چکلے

یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں، کہاں‌ ہیں، محافظِ خودی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ ہیں

کبھی کبھی مرے دل میں‌ یہ خیال آتا ہے

کبھی کبھی

کبھی کبھی مِرے دل میں‌ یہ خیال آتا ہے
کہ زندگی تِری زُلفوں کی نرم چھاؤں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مِری زیست کا مقدر ہے
تِری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا

فلمی گیت

جانے وہ کیسے لوگ تھے
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
ہم نے تو جب کلیاں‌ مانگیں، کانٹوں‌ کا ہار ملا

خوشیوں‌ کی منزل ڈھونڈی تو غم کی گرد ملی
چاہت کے نغمے چاہے تو آہِ سرد ملی
دل کے بوجھ کو دُونا کر گیا جو غمخوار ملا

میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے

میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے

فن کار

میں نے جو گِیت تِرے پیار کی خاطر لکھے
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں
آج دُکان پہ نیلام اُٹھے گا ان کا
تُو نے جن گیتوں پہ رکھی تھی محبت کی اساس

وہ صبح کبھی تو آئے گی

اُمید

وہ صبح کبھی تو آئے گی

ان کالی صدیوں کے سر سے، جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دُکھ کے بادل پِگھلیں گے، جب دُکھ کا ساگر چَھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا، جب دھرتی نغمے گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی

وہ صبح‌ ہمیں سے آئے گی

یقین

وہ صبح‌ ہمِیں سے آئے گی
جب دھرتی کروٹ بدلے گی، جب قید سے قیدی چُھوٹیں گے
جب پاپ گھروندے پُھوٹیں گے، جب ظلم کے بندھن ٹُوٹیں گے
اس صبح کو ہم ہی لائیں گے، وہ صبح‌ ہمِیں سے آئے گی
وہ صبح‌ ہمِیں سے آئے گی

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاکِ صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغِ بیداد پہ، یا لاشہ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

خوبصورت موڑ

چلو اِک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دلنوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
یہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے

آؤ کہ کوئی خواب بنیں کل کے واسطے

آؤ کہ کوئی خواب بُنیں

آؤ کہ کوئی خواب بُنیں، کل کے واسطے
ورنہ یہ رات، آج کے سنگین دَور کی
ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے، کہ جان و دل
تاعمر پھر نہ کوئی حسِیں خواب بُن سکیں

گو ہم سے بھاگتی رہی یہ تیز گام عمر
خوابوں کے آسرے پہ کٹی ہے تمام عمر

طرب زاروں پہ کیا بیتی صنم خانو‌ں پہ کیا گزری

طرب زاروں پہ کیا بِیتی، صنم خانو‌ں پہ کیا گزری
دلِ زندہ! تِرے مرحوم ارمانوں پہ کیا گزری
زمیں نے خون اُگلا، آسماں نے آگ برسائی
جب انسانوں کے دن بدلے، تو انسانوں پہ کیا گزری
ہمیں یہ فکر، ان کی انجمن کس حال میں ہو گی
انہیں یہ غم کہ ان سے چھٹ کے دیوانوں پہ کیا گزری

ہر قدم مرحلۂ دار و صلیب آج بھی ہے

ہر قدم مرحلۂ دار و صلِیب آج بھی ہے
جو کبھی تھا وہی انساں کا نصیب آج بھی ہے
جگمگاتے ہیں اُفق پار ستارے، لیکن
راستہ منزلِ ہستی کا مہیب آج بھی ہے
سرِ مقتل جنہیں جانا تھا وہ جا بھی پہنچے
سرِ منبر کوئی محتاط خطیب آج بھی ہے

اے شریکِ زندگی! اِس بات پر روتی ہے تُو

اے شریکِ زندگی! اِس بات پر روتی ہے تُو
کیوں مِرا ذوقِ ادب ہے مائلِ جام و سبُو
کس لیے اس پر نہیں روتی کہ اہلِ خانقاہ
داڑھیوں سے ہندیوں کو کر رہے ہیں رُوسیاہ
کس لیے اس پر نہیں روتی کہ مصنُوعی صلوٰۃ
خم کیے دیتی ہے اپنے وزن سے پشتِ حیات

حیرت ہے آہ صبح کو ساری فضا سنے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

حیرت ہے، آہِ صُبح کو ساری فضا سُنے
لیکن زمیں پہ بُت، نہ فلک پر خُدا سُنے
فریادِ عندلیب سے کانپے تمام باغ
لیکن نہ گُل، نہ غُنچہ، نہ بادِ صبا سُنے
خُود اپنی ہی صداؤں سے گُونجے ہُوئے ہیں کان
کوئی کسی کی بات سُنے بھی تو کیا سُنے

قسم ہے آپ کے ہر روز روٹھ جانے کی

قسم ہے آپ کے ہر روز رُوٹھ جانے کی
کہ اب ہوس ہے اَجل کو گلے لگانے کی
وہاں سے ہے مِری ہمّت کی ابتدا واللہ
جو انتہا ہے تِرے صبر آزمانے کی
پُھنکا ہوا ہے مِرے آشیاں کا ہر تِنکا
فلک کو خُو ہے تو ہو بجلیاں گرانے کی

جو مثلِ دوست، عدو کو بھی سرفراز کرے

جو مثلِ دوست، عدو کو بھی سرفراز کرے
اُس آدمی کی خدا زندگی دراز کرے
زمانہ شحنۂ سلطاں سے کاش یہ کہہ دے
کہ آہِ گوشہ نشیناں سے احتراز کرے
جسے ہو ایک توانائئ عظیم کی دُھن
وہ کیا پرستشِ معبودِ خانہ ساز کرے

یہ بات یہ تبسم یہ ناز یہ نگاہیں

یہ بات، یہ تبسّم، یہ ناز، یہ نگاہیں 
آخر تمہیں بتاؤ کیوں کر نہ تم کو چاہیں
اب سر اُٹھا کہ میں نے شکوؤں سے ہات اُٹھایا
مر جاؤں گا ستمگر، نیچی نہ کر نگاہیں
کچھ گُل ہی سے نہیں‌ ہے رُوحِ نمو کو رغبت
گردن میں خار کی بھی ڈالے ہوئے ہے بانہیں

رکنے لگی ہے نبض رفتار جاں نثاراں

رُکنے لگی ہے نبضِ رفتارِ جاں نثاراں
کب تک یہ تندگامی, اے میرِ شہسواراں
اِٹھلا رہے ہیں جھونکے، بوچھار آ رہی ہے
ایسے میں تو بھی آ جا، اے جانِ جاں نثاراں
کب سے مچل رہی ہے اس زلفِ خم نہ خم میں
تعبیرِ خوابِ سُنبل، تفسیرِ باد و باراں

دیر سے منتظر ہوں میں، بیٹھ نہ یوں حجاب میں

دیر سے منتظر ہوں میں، بیٹھ نہ یوں حجاب میں
تاروں کی چھاؤں ہے، در آ میرے دلِ خراب میں
کس سے کہوں میں داستاں طولِ شب فراق کی
جاگ رہا ہوں ایک میں، سارا جہاں ہے خواب میں
اُس سے ڈرو وہ فتنۂ بزمِ حیات جسے
شیب میں ‌تابِ مے نہ ہو، عشق نہ ہو شباب میں

جلا کے میری نظر کا پردہ ہٹا دی رخ سے نقاب تو نے

جلا کے میری نظر کا پردہ، ہٹا دی رُخ سے نقاب تُو نے
چراغ اُٹھا کر، مِرے شبستاں میں رکھ دیا آفتاب تُو نے
فلک نظر سے تڑپ رہا ہے، زمین عشوؤں سے ہِل رہی ہے
کہاں سے پایا ہے او ستمگر! یہ مست و کافر شباب تُو نے
نسیم اوراق اُلٹ رہی ہے، نجوم مِشعل دِکھا رہے ہیں
اُفق کی سُرخی میں‌ پیش کی ہے، سحر کی زرَّیں کتاب تُو نے

Monday 24 February 2014

درد وراثت پا لینے سے نام نہیں چل سکتا

درد وراثت پا لینے سے نام نہیں چل سکتا
عشق میں بابا ایک جنم سے کام نہیں چل سکتا
بہت دنوں سے مجھ میں ہے کیفیت رونے والی
درد فراواں سینے میں کہرام نہیں چل سکتا
تہمتِ عشق مناسب ہے اور ہم پر جچتی ہے
ہم ایسوں پر اور کوئی الزام نہیں چل سکتا

عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں

عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں
رات بستر پہ میں سوتا نہیں مر جاتا ہوں
اکثر اوقات بھرے شہر کے سناٹے میں
اس قدر زور سے ہنستا ہوں کہ ڈر جاتا ہوں
دل ٹھہر جاتا ہے بھولی ہوئی منزل میں کہیں
میں کسی دوسرے رَستے سے گزر جاتا ہوں

دیکھنا اہل جنوں ساعت جہد آ پہنچی

دیکھنا اہلِ جنوں، ساعتِ جہد آ پہنچی
اب کے توہینِ لبِ دار نہ ہونے پائے
اب کے کُھل جائیں خزانے نفَسِ سوزاں کے 
اب کے محرومئ اظہار نہ ہونے پائے 
یہ جو غدّار ہے اپنی ہی صفِ اول میں 
غیر کے ہات کی تلوار نہ ہونے پائے 

گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے

گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے
مِٹی مِٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال
بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے
ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہلِ دنیا نے

میری زندگی تو فراق ہے وہ ازل سے دل میں مکیں سہی

میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے دار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی
سرِ طور ہو، سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

دل پہ جب درد کی افتاد پڑی ہوتی ہے

دل پہ جب درد کی اُفتاد پڑی ہوتی ہے
دوستو! وہ تو قیامت کی گھڑی ہوتی ہے
جس طرف جائیں، جہاں جائیں بھری دنیا میں
راستہ روکے تِری یاد کھڑی ہوتی ہے
جس نے مَر مَر کے گزاری ہو، یہ اس سے پوچھو
ہِجر کی رات بھلا کتنی کڑی ہوتی ہے

Sunday 23 February 2014

بس یہی شمعیں بچی تھیں یہ بھی بجھوا دی گئیں

بس یہی شمعیں بچی تھیں یہ بھی بُجھوا دی گئیں
اُنگلیاں میری عجائب گھر میں رکھوا دی گئیں
ایک گونگے کو مِلی پھر خُوش کلامی کی سند
میرے لفظوں کی زبانیں پھر ترشوا دی گئیں
اس کی جانب ہم نے چلنے کا ارادہ جب کیا
راستے کی ساری پہچانیں بدلوا دی گئیں

کسی جانب سے بھی پرچم نہ لہو کا نکلا

کسی جانب سے بھی پرچم نہ لہُو کا نکلا
اب کے موسم میں بھی عالم وہی ہُو کا نکلا
دستِ قاتل سے کچھ امیدِ شفا تھی، لیکن
نوکِ خنجر سے بھی کانٹا نہ گلُو کا نکلا
عشق الزام لگاتا تھا ہوس پر کیا کیا
یہ منافق بھی تِرے وصل کا بُھوکا نکلا

اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی

اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی
میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی
کن بے دلوں میں پھینک دیا حادثات نے
آنکھوں میں جن کی نُور نہ باتوں میں‌ تازگی
بول اے مِرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں
میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آدمی

دل کو خیال یار نے مسحور کر دیا

دل کو خیالِ یار نے مسحُور کر دیا
ساغر کو رنگِ بادہ نے پُرنُور کر دیا
مانوس ہو چلا تھا تسلّی سے حالِ دل
پھر تُو نے یاد آ کے بدستور کر دیا
بیتابیوں سے چُھپ نہ سکا ماجرائے دِل
آخر، حضورِ یار بھی مذکور کر دیا

Saturday 22 February 2014

گھر واپس جب آؤ گے تم

 گیت


گھر واپس جب آؤ گے تم

کون تمہیں پہچانے گا

کون کہے گا، تم بِن ساجن

یہ نگری سنسان

بِن دستک دروازہ گم سم، بِن آہٹ دہلیز

سونے چاند کو تکتے تکتے راہیں پڑ گئی ماند

ملائم گرم سمجھوتے کی چادر

سمجھوتہ

ملائم گرم سمجھوتے کی چادر
یہ چادر میں نے برسوں میں بُنی
کہیں بھی سچ کے گُل بُوٹے نہیں ہیں
کِسی بھی جھوٹ کا ٹانکا نہیں ہے
اسی سے میں بھی تن ڈھک لوں گی اپنا
اسی سے تم بھی آسودہ رہو گے

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

سُنا ہے

سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سُنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں

خوش جو آئے تھے پشیمان گئے

خوش جو آئے تھے، پشیمان گئے
اے تغافل! تجھے پہچان گئے
خوب ہے صاحبِ محفل کی ادا
کوئی بولا تو بُرا مان گئے
اس کو سمجھے کہ نہ سمجھے لیکن
گردشِ دہر، تجھے جان گئے

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی
ترکِ اُلفت کے بعد اُمیدِ وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی
اب جفا کی صراحتیں بے کار
بات سے بھر سکا ہے گھاؤ کبھی

شہر جمال کے خس و خاشاک ہو گئے

شہرِ جمال کے خس و خاشاک ہو گئے
اب آئے ہو جب آگ سے ہم خاک ہو گئے
ہم سے فروغِ خاک، نہ زیبائی آب کی
کائی کی طرح تہمتِ  پوشاک ہو گئے
پیراہنِ صبا تو کسی طور سِل گیا
دامانِ صد بہار مگر چاک ہو گئے

اس دنیا میں اپنا کیا ہے

اس دنیا میں اپنا کیا ہے
کہنے کو سب کچھ اپنا ہے
یوں تو شبنم بھی دریا ہے
یوں تو دریا بھی پیاسا ہے
یوں تو ہر ہیرا بھی کنکر
یوں تو مٹی بھی سونا ہے

اب کے سال پونم میں جب تو آئے گی ملنے

اب کے سال پُونم میں جب تُو آئے گی مِلنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یُوں گزاریں گے
دھڑکنیں بِچھا دیں گے شوخ تیرے قدموں پہ، ہم نگاہوں سے تیری آرتی اُتاریں گے
تُو کہ آج قاتل ہے، پھر بھی راحتِ دل ہے، زہر کی ندی ہے تو، پھر بھی قیمتی ہے تُو
پست حوصلے والے تیرا ساتھ کیا دیں گے، زندگی ادھر آ جا، ہم تجھے گزاریں گے
آہنی کلیجے کو زخم کی ضرورت ہے، انگلیوں سے جو ٹپکے اس لہو کی حاجت ہے
آپ زلفِ جاناں کے خَم سنوارئیے صاحب، زندگی کی زُلفوں کو آپ کیا سنواریں گے

گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل

گلی گلی مِری یاد بِچھی ہے پیارے رَستہ دیکھ کے چل
مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دُور نکل
ایک سَمے تِرا پُھول سا نازک ہاتھ تھا میرے شانوں پر
ایک یہ وقت کہ میں تنہا اور دُکھ کے کانٹوں کا جنگل
یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تُو خاموش کھڑا تھا، لیکن باتیں کرتا تھا کاجل

ہم عاشق فاسق تھے ہم صوفی صافی ہيں

ہم عاشقِ فاسق تھے، ہم صوفئ صافی ہيں
پی ليں جو کہيں اب بھی درخورِ معافی ہيں
بيگار بھی ململ بھی گرمی ميں شب فرقت
کام آئيں گے جاڑے ميں فردِيں جو لحافی ہيں
عقلوں کو بنا دے گا، ديوانہ جمال ان کا
چھا جائيں گی ہوشوں پر آنکھيں وہ غلافی ہيں

اس بت کے پجاری ہیں مسلمان ہزاروں

اس بُت کے پُجاری ہیں مسلمان ہزاروں
بگڑے ہیں اِسی کُفر میں ایمان ہزاروں
دُنیا ہے کہ اُنکے رُخ و گیسو پہ مِٹی ہے
حیران ہزاروں ہیں، پریشان ہزاروں
تنہائی میں بھی تیرے تصوّر کی بدولت
دِل بستگیٔ غم کے ہیں سامان ہزاروں

روشن جمال يار سے ہے انجمن تمام

روشن جمالِ يار سے ہے انجمن تمام
دِہکا ہُوا ہے آتشِ گُل سے چمن تمام
حيرت غرُورِ حُسن سے، شوخی سے اضطراب
دل نے بھی تيرے سيکھ لئے یيں چلن تمام
اللہ ری جسمِ يار کی خوبی، کہ خودبخود
رنگينيوں ميں ڈُُوب گيا پيرہن تمام

اور تو پاس مرے ہجر ميں کيا رکھا ہے

اور تو پاس مِرے ہِجر ميں کيا رکھا ہے
اِک تِرے درد کو پہلو ميں چھپا رکھا ہے
دل سے اربابِ وفا کا ہے بھلانا مُشکل
ہم نے ان کے تغافل کو سُنا رکھا ہے
تم نے بال اپنے جو پھولوں ميں بسا رکھے ہيں
شوق کو اور بھی ديوانہ بنا رکھا ہے

Friday 21 February 2014

کافر ہوں سر پھرا ہوں مجھے مار دیجیے

کافر ہوں، سر پھرا ہوں مجھے مار دیجیے
میں سوچنے لگا ہوں مجھے مار دیجیے
ہے احترامِ حضرتِ انسان، میرا دِین
بے دِین ہو گیا ہوں مجھے مار دیجیے
میں پوچھنے لگا ہوں سبب اپنے قتل کا
میں حد سے بڑھ گیا ہوں مجھے مار دیجیے

سوچوں کو منجدھار کیا خود کو پتوار کیا

سوچوں کو منجدھار کیا، خود کو پتوار کیا
دل کا دریا پار کیا اور پہلی بار کیا
ہجر کی پہلی شام پڑے دو بھاری کام پڑے
اس کو بھی تیار کیا، دل بھی تیار کیا
قطرہ قطرہ جھیل بنیں پھر آنکھیں نیل بنیں
مجھ کو بہتی دھار کیا، ساون کی تار کیا

Wednesday 19 February 2014

میں حسین ابن علی تیری دیوانی مولا

میں حسین ابن علی تیری دیوانی مولا
اشک کو دی ہے تیرے غم نے روانی مولا
کون منکر ہے تیری جرأت و بے باکی کا
تیرے جیسی نہ جگ میں کوئی کہانی مولا
تھے فرشتے سبھی امداد کو آنے والے
روک کر تُو نے دکھائی ہے جوانی مولا

تم وہی ہو جس سے مل کر زندگی اچھی لگی

تم وہی ہو جس سے مل کر زندگی اچھی لگی 
یہ جہاں اچھا لگا، یہ روشنی اچھی لگی 
میرے آنگن میں کوئی سایہ سا لہراتا رہا 
چاند بھی اچھا لگا، اور چاندنی اچھی لگی 
قطرہ قطرہ تیری یاد دل میں گھر کرنے لگی 
تیرا پیکر، تیری باتیں اور ہنسی اچھی لگی 

جو شہر مکینوں کو اماں بھی نہيں دیتے

جو شہر مکینوں کو اماں بھی نہيں دیتے
وہ اگلے زمانوں کو نشاں بھی نہيں دیتے
ہر روز سجاتے ہيں سوا نیزے پہ سورج
رہنے کے لیے اور جہاں بھی نہيں دیتے
ہر روز کٹا دیتے ہيں جو فصل سروں کی
وہ شعلہ بیانوں کو زباں بھی نہيں دیتے

کسی اداس جہاں کی بشارتیں ہی ملیں

کسی اداس جہاں کی بشارتیں ہی ملیں
ہمیں تو شہر میں ہر سُو زیارتیں ہی ملیں
بس اِک نگاہ سے اس کی بدل گئے موسم
مزاجِ یار میں ایسی شرارتیں ہی ملیں
ہمیں بھی حاتمِ طے ہی سمجھ لیا اس نے
ہر اِک مقام پہ ہم کو بُجھارتیں ہی ملیں

رات جاگی تو کئی درد پرانے جاگے

رات جاگی تو کئی درد پرانے جاگے
ہم جو جاگے تو کئی گزرے زمانے جاگے
ہم کسی خواب نگر میں تھے جگایا کس نے
زندگی سے بھی کہو ساتھ نبھانے جاگے
غمِ دوراں غمِ ہجراں کو سُلایا تھا، مگر
دل میں غم جاگا تو سب اس کے بہانے جاگے

سبھی سورج ستاروں کی ضیائیں ساتھ رہتی ہیں

سبھی سُورج ستاروں کی ضیائیں ساتھ رہتی ہیں
جو چہرے بُھول جاتے ہیں ادائیں ساتھ رہتی ہیں
سِتمگر کوئی ہو مجھ سے جُدا ہونے نہیں پاتا
محبت بُھول جاتی ہوں، جفائیں ساتھ رہتی ہیں
مجھے دُشمن کا کوئی وار گھائل کر نہیں سکتا
کڑے لمحوں میں ممتا کی دُعائیں ساتھ رہتی ہیں

تپتے صحراؤں پہ گرجا سر دریا برسا

تپتے صحراؤں پہ گرجا، سرِ دریا برسا
تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا
کتنے طوفانوں کی حامل تھی لہو کی اِک بوند
دل میں اِک لہر اٹھی، آنکھ سے دریا برسا
کوئی غرقاب، کوئی ماہئ بے آب ہُوا
ابرِ بے فیض جو برسا بھی تو کیسا برسا

اس کی نوازشوں نے تو حیران کر دیا

اُس کی نوازشوں نے تو حیران کر دیا
میں میزبان تھا مجھے مہمان کر دیا
اِک نوبہارِ ناز کے ہلکے سے لمس نے
میرے تو سارے جسم کو گلدان کر دیا
کل اِک نگارِ شہرِ سبا نے بہ لطفِ خاص
مجھ سے فقیر کو بھی سلیمان کر دیا

ایک دیوانہ یہ کہتے ہوئے ہنستا جاتا

ایک دیوانہ یہ کہتے ہوئے ہنستا جاتا
کاش منزل سے بھی آگے کوئی رَستا جاتا
اے میرے ابرِ گریزاں مِری آنکھوں کی طرح
گر برسنا ہی تجھے تھا تو برستا جاتا
آج تک یاد ہے اظہارِ محبت کا وہ پَل
کہ مِری بات کی لُکنت پہ وہ ہنستا جاتا

بجھا ہے دل تو غم یار اب کہاں تو بھی

بجھا ہے دل تو غمِ یار اب کہاں تُو بھی
بسانِ نقش بہ دیوار اب کہاں تو بھی
بجا کہ چشمِ طلب بھی ہوئی تہی کیسہ
مگر ہے رونقِ بازار اب کہاں تو بھی
ہمیں بھی کارِ جہاں لے گیا ہے دور بہت
رہا ہے درپئے آزار اب کہاں تو بھی

بند کر کھیل تماشا ہمیں نیند آتی ہے

بند کر کھیل تماشا ہمیں نیند آتی ہے
اب تو سو جانے دے دُنیا ہمیں نیند آتی ہے
ڈُوبتے چاند ستاروں نے کہا ہے ہم سے
تم ذرا جاگتے رہنا ہمیں نیند آتی ہے
دل کی خواہش کہ تِرا راستہ دیکھا جائے
اور آنکھوں کا یہ کہنا ہمیں نیند آتی ہے

جب بھی دیکھا مرے کردار پہ دھبا کوئی

جب بھی دیکھا مِرے کردار پہ دھبّا کوئی
دیر تک بیٹھ کے تنہائی میں رویا کوئی
لوگ ماضی کا بھی اندازہ لگا لیتے ہیں
مجھ کو تو یاد نہیں کل کا بھی قصہ کوئی
بے سبب آنکھ میں آنسو نہیں آیا کرتے
آپ سے ہو گا یقیناً مِرا رِشتہ کوئی

ہاں اجازت ہے اگر کوئی کہانی اور ہے

ہاں اجازت ہے اگر کوئی کہانی اور ہے
ان کٹوروں میں ابھی تھوڑا سا پانی اور ہے
مذہبی مزدور سب بیٹھے ہیں ان کو کام دو
اِک عمارت شہر میں کافی پرانی اور ہے
خامشی کب چیخ بن جائے کسے معلوم ہے
ظُلم کر لو جب تلک یہ بے زبانی اور ہے

میاں میں شیر ہوں شیروں کی غراہٹ نہیں جاتی

میاں میں شیر ہوں، شیروں کی غرّاہٹ نہیں جاتی
میں لہجہ نرم بھی کر لوں تو جُھنجھلاہٹ نہیں جاتی
میں اِک دن بے خیالی میں کہیں سچ بول بیٹھا تھا
میں کوشش کر چکا ہوں منہ کی کڑواہٹ نہیں جاتی
جہاں میں ہوں وہیں آواز دینا جرم ٹھہرا ہے
جہاں وہ ہے وہاں تک پاؤں کی آہٹ نہیں جاتی

برسوں کا تھما ساون

برسوں کا تھما ساون

دیکھا جو تمہیں پھر سے
اِک یاد اُٹھی دل میں
کالی سی گھٹا بن کر
فریاد اُٹھی دل میں
شوریدہ ہواؤں نے

اجازت: او جانے والے چلے ہی جانا ذرا رکو تو ذرا

اجازت

او جانے والے
چلے ہی جانا
ذرا رُکو تو 
ذرا، سُنو تو
تمہاری خاطر جو لمحہ لمحہ بکھرتے آنسو جمع کئے تھے

حساب کتاب: میری زندگی کی کتاب میں

حساب کتاب

میری زندگی کی کتاب میں
میرے روز و شب کے حساب میں
تیرا نام جتنے صفحوں پہ ہے
تیری یاد جتنی شبوں میں ہے
وہی چند صفحے ہیں متاعِ جان
اُنہی رتجگوں کا شمار ہے

خضر سے: کہا مشکل میں رہتا ہوں

خضرؑ سے
(مکالماتی نظم)

کہا مشکل میں رہتا ہوں
کہا آسان کر ڈالو
کہ جس کی چاہ زیادہ ہو
وہی قربان کر ڈالو

اقبال اور فرشتے: وہ دور آیا نہیں ابھی تک

اقبال اور فرشتے

وہ دور آیا، نہیں ابھی تک
نظام بدلا، نہیں ابھی تک
وہ کاخِ اُمراء، ہِلی نہیں ہے
غریب جاگا، نہیں ابھی تک
وہ میرا شاہیں، بے بال و پر ہے
پلٹ کے جھپٹا، نہیں ابھی تک

بے خودی بخدا بڑھے اس سے

بے خودی بَخدا بڑھے اِس سے
تیری خوشبو شراب لگتی ہے
اپنی قسمت پہ اب نہ چھوڑیں گے
اپنی قسمت خراب لگتی ہے
جن کو تڑپائے بھوک راتوں میں
ان کو روٹی عذاب لگتی ہے

جو ہوتی دیس میں عزت ہنر کی

جو ہوتی دیس میں عزت ہُنر کی
نہ کھاتے ٹھوکریں ہم در بدر کی
کہا مرتے ہوئے بیکس نے مجھ سے
سخاوت دیکھ لی تیرے نگر کی
جو حج میں ایک امت لگ رہی ہے
سنو اِس کی کہانی سال بھر کی

نشانہ آزمایا جا رہا ہے

نشانہ آزمایا جا رہا ہے
ہمیں ناحق ستایا جا رہا ہے
جلا کر چل دئیے جو آشیاں کو
انہیں پھر سے بلایا جا رہا ہے
جسے لکھا ہمارے دشمنوں نے
وہ نغمہ گنگنایا جا رہا ہے

کیسی تاویل مرے دوست بہانہ کیسا

کیسی تاوِیل مِرے دوست، بہانہ کیسا
زخم جاگیرِ محبت ہیں، چُھپانا کیسا
شِدّتِ لمس سے جلتا ہے بدن، جلنے دو
پہلوئے یار میں دامن کو بچانا کیسا
شعر در شعر ٹپکتا ہے قلم سے میرے
ڈھونڈ رکھا ہے تیرے غم نے ٹھکانا کیسا

اک ذرا سن تو مہکتے ہوئے گیسو والی

اِک ذرا سن تو مہکتے ہوئے گیسُو والی
راہ میں کون دکاں پڑتی ہے خوشبو والی
پھر یہ کیوں ہے کہ مجھے دیکھ کے رَم خوردہ ہے
تیری آنکھوں میں تو وحشت نہیں آہو والی
دیکھنے میں تو ہیں سادہ سے خد و خال مگر
لوگ کہتے ہیں کوئی بات ہے جادو والی

سنا تو ہے کہ نگار بہار راہ میں ہے

سنا تو ہے کہ نگارِ بہار راہ میں ہے
سفر بخیر کہ دشمن ہزار میں ہے
گزر بھی جا غمِ جان و غم جہاں سے کہ یہ
وہ منزلیں ہیں کہ جن کا شمار راہ میں ہے
تمیزِ رہبر و رہزن ابھی نہیں ممکن
ذرا ٹھہر کر، بلا کا غبار راہ میں ہے

Tuesday 18 February 2014

يہ عالم شوق کا ديکھا نہ جائے

يہ عالم شوق کا ديکھا نہ جائے
وہ بُت ہے يا خدا، ديکھا نہ جائے
یہ میرے ساتھ کیسی روشنی ہے
کہ مجھ سے راستہ دیکھا نہ جائے
يہ کِن نظروں سے تُو نے آج ديکھا
کہ تيرا ديکھنا، ديکھا نہ جائے

خاموش ہو کیوں داد جفا کیوں نہیں دیتے

خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بِسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے
وحشت کا سبب روزن زندان تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بُجھا کیوں نہیں دیتے
ایک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو درد بڑھا کیوں نہیں دیتے

اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھی خوابوں ميں مليں

اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھی خوابوں ميں مِليں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتی
يہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں
غمِ دنيا بھی غمِ يار ميں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابيں جو شرابوں ميں مليں

ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ

ہر آشنا میں کہاں خوئے مِحرمانہ وہ
کہ بے وفا تھا مگر دوست تھا پرانا وہ
کہاں سے لائیں اب آنکھیں اسے کہ رکھتا تھا
عداوتوں میں بھی انداز مخلصانہ وہ
جو ابر تھا تو اسے ٹوٹ کر برسنا تھا
یہ کیا کہ آگ لگا کر ہوا روانہ وہ

ہوا کے زور سے پندار بام و در بھی گیا

ہوا کے زور سے پندارِ بام و در بھی گیا
چراغ کو جو بچاتے تھے ان کا گھر بھی گیا
پکارتے رہے محفوظ کشتیوں والے
میں ڈوبتا ہوا دریا کے پار اتر بھی گیا
اس احتیاط کی دیوار کیا اٹھاتے ہو
جو چور دل میں چھپا تھا وہ کام کر بھی گیا

رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی

رنگ دِکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی
بال چاندی ہو گئے، سونا ہُوئے رخسار بھی
درد کے جھونکوں نے اب کے دل ہی ٹھنڈا کر دیا
آگ برساتا تھا آگے دیدۂ خوں بار بھی
بیٹھے بیٹھے جانے کیوں بیتاب ہو جاتا ہے دل
پوچھتے کیا ہو میاں، اچھا بھی ہوں بیمار بھی

چہرہ افروز ہوئی پہلی جھڑی ہم نفسو شکر کرو

چہرہ افروز ہوئی پہلی جَھڑی ہم نفسو شُکر کرو
دل کی افسردگی کچھ کم تو ہوئی ہم نفسو شکر کرو
آو پھر یادِ عزیزاں ہی سے میخانۂ جاں گرم کریں
دیر کے بعد یہ محفل تو جمی ہم نفسو شکر کرو
آج پھر دیر کی سوئی ہوئی ندی میں نئی لہر آئی
دیر کے بعد کوئی ناؤ چلی ہم نفسو شکر کرو

پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے

پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے
یارو! یہ کیسی ہَوا ہے اب کے
دوست بِچھڑے ہیں کئی بار مگر
یہ نیا داغ کھلا ہے اب کے
پتّیاں روتی ہیں سر پیٹتی ہیں
قتلِ گل عام ہُوا ہے اب کے

اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں

اپنی رسوائی، تِرے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہو گئی، دھندلا گئیں آنکھیں بھی مِری
بھولنے والے، میں کب تک تِرا رَستا دیکھوں

ذرے سرکش ہوئے کہنے میں ہوائیں بھی نہیں

ذرے سرکش ہوئے، کہنے میں ہوائیں بھی نہیں
آسمانوں پہ کہیں تنگ نہ ہو جائے زمیں
آ کے دیوار پہ بیٹھی تھیں کہ پھر اڑ نہ سکیں
تِتلیاں بانجھ مناظر میں نظربند ہوئیں
پیڑ کی سانسوں میں چڑیا کا بدن کِھنچتا گیا
نبض رکتی گئی، شاخوں کی رگیں کھلتی گئیں

چھونے سے قبل رنگ کے پیکر پگھل گئے

چھونے سے قبل رنگ کے پیکر پِگھل گئے
مٹھی میں آ نہ پائے کہ جگنو نکل گئے
پھیلے ہوئے تھے جاگتی نیندوں کے سلسلے
آنکھیں کھلیں تو رات کے منظر بدل گئے
کب حدتِ گلاب پہ حرف آنے پائے گا
تتلی کے پَر اڑان کی گرمی سے جل گئے

دشمن ہے اور ساتھ رہے جان کی طرح

دشمن ہے اور ساتھ رہے جان کی طرح
 مجھ میں اتر گیا ہے وہ سرطان کی طرح
جکڑے ہوئے ہے تن کو مِرے، اس کی آرزو
 پھیلا ہوا ہے جال سا شریان کی طرح
دیوار و در نے جس کیلئے ہجر کاٹے تھے
 آیا تھا چند روز کو، مہمان کی طرح

اڑ جائیں گے تصویر کے رنگوں کی طرح ہیں

اڑ جائیں گے تصویر کے رنگوں کی طرح ہیں
ہم وقت کی ٹہنی پہ پرندوں کی طرح ہیں
تم شاخ پہ کِھلتے ہوئے پُھولوں کی طرح ہو
ہم ریت پہ لِکھے ہوئے حرفوں کی طرح ہیں
اِک عمر ترستے ہیں کسی ایک خوشی کو
ہم لوگ بھی بنجر سی زمینوں کی طرح ہیں

سن لیا ہم نے فیصلہ تیرا

سن لیا ہم نے فیصلہ تیرا

سُن لیا ہم نے فیصلہ تیرا
اور سُن کر، اُداس ہو بیٹھے
ذہن چُپ چاپ، آنکھ خالی ہے
جیسے ہم کائنات کھو بیٹھے

دُھندلے دُھندلے سےمنظروں میں مگر
چھیڑتی ہیں، تجلّیاں تیری

اب تو خواہش ہے کہ یہ زخم بھی کھا کر دیکھیں

اب تو خواہش ہے کہ یہ زخم بھی کھا کر دیکھیں
لمحہ بھر کے لیے ہی سہی اُس کو بھلا کر دیکھیں
شہر میں جشنِ شبِ قدر کی ساعت آئی
آج ہم بھی تیرے مِلنے کی دُعا کو دیکھیں
آندھیوں سے جو اُلجھنے کی کسک رکھتے ہیں
اِک دِیا تیز ہَوا میں بھی جلا کر دیکھیں

چاندنی، سوچ، صدا راہگزر آوارہ

چاندنی، سوچ، صدا، راہگزر آوارہ
صُورتِ گردِ سفر، اہلِ سفر آوارہ
تجھ سے بِچھڑا ہوں تو لگتے ہیں مجھے اپنی طرح
یہ در و بام و دل و دیدۂ تر آوارہ
ڈوبتا دن جہاں کرنوں کے نشاں چھوڑ گیا
رات بھٹکے گی یوں تا بہ سحر آوارہ

بچھڑے ہوئے یاروں کی صدا کیوں نہیں آتی

بچھڑے ہوئے یاروں کی صدا کیوں نہیں آتی
اب روزنِ زِنداں سے ہَوا کیوں نہیں آتی
تُو اب بھی سلامت ہے سفر میں تو مسافر
تیرے لیے ہونٹوں پے دعا کیوں نہیں آتی
پتھر ہو تو کیوں خوفِ شبِ غم سے ہو لرزاں
انسان ہو تو جینے کی ادا کیوں نہیں آتی

Sunday 16 February 2014

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی

عشق مجھ کو نہیں، وحشت ہی سہی
میری وحشت، تِری شہرت ہی سہی
قطع کیجے نہ، تعلّق ہم سے
کچھ نہیں ہے، تو عداوت ہی سہی
میرے ہونے میں، ہے کیا رُسوائی
اے، وہ مجلس نہیں، خلوت ہی سہی

جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں
دل آشفتگاں خالِ کنجِ دہن کے
سویدا میں سیرِ عدم دیکھتے ہیں
تِرے سروِ قامت سے اِک قدِ آدم
قیامت کے فِتنے کو کم دیکھتے ہیں

Saturday 15 February 2014

یہ تو ٹھیک ہے جی کچھ ہلکا ہو جائے گا

یہ تو ٹھیک ہے جی کچھ ہلکا ہو جائے گا
بولو گے تو گھر گھر چرچا ہو جائے گا
چلو، ہم آئندہ دستار نہیں باندھیں گے
چلو، کسی کا سر تو اونچا ہو جائے گا
برسوں پہلے گاؤں سے جانےوالا لڑکا
واپس آتے آتے بوڑھا ہو جائے گا

کھونا بھی نہیں ہے اسے پانا بھی نہیں ہے

کھونا بھی نہیں ہے اسے پانا بھی نہیں ہے
یہ کیا ہے کبھی اس کو بتانا بھی نہیں ہے
کردار ہے کوئی نہ کوئی ربط ہے اس میں
یہ تیرا افسانہ تو فسانہ بھی نہیں ہے
وہ قصہ جو دیوار میں چُنوایا گیا تھا
کچھ تازہ نہیں ہے تو پُرانا بھی نہیں ہے

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے

مدت ہوئی ہے، یار کو مہماں کئے ہوئے
جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کئے ہوئے
کرتا ہوں جمع پهر جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہُوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہوئے
پهر وضعِ احتیاط سے رُکنے لگا ہے دَم
برسوں ہوئے ہیں چاکِ گریباں کئے ہوئے

دل ہی تو ہے نہ سنگ خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

دل ہی تو ہے نہ سنگ خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
دَیر نہیں حرم نہیں، در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں
جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چُھپائے کیوں

Friday 14 February 2014

زیر لب یہ جو تبسم کا دیا رکھا ہے

زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہے
ہے کوئی بات جسے تم نے چھُپا رکھا ہے
چند بے ربط سے صفحوں میں، کتابِ جاں کے
اِک نشانی کی طرح عہدِ وفا رکھا ہے
ایک ہی شکل نظر آتی ہے، جاگے، سوئے
تم نے جادُو سا کوئی مجھ پہ چلا رکھا ہے

شمار گردش لیل و نہار کرتے ہوئے

شمارِ گردشِ لیل و نہار کرتے ہُوئے
گُزر چلی ہے تِرا انتظار کرتے ہوئے
خدا گواہ، وہ آسودگی نہیں پائی
تمہارے بعد کسی سے بھی پیار کرتے ہوئے
تمام اہلِ سَفر ایک سے نہیں ہوتے
کھلا یہ وقت کے دریا کو پار کرتے ہوئے

جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں

جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں
جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں
نشے میں نیند کے تارے بھی اِک دُوجے پر گرتے ہیں
تھکن رَستوں کی کہتی ہے، چلو اب اپنے گھر جائیں
کچھ ایسی بے حِسی کی دُھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں
ہماری صُورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں

کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے

کسی کی آنکھ جو پُر نم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے
سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں
پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کو
اگرچہ گفتگو مبہم نہیں ہے

Thursday 13 February 2014

محرم تھا جب دل کا تیرے تو گھبرایا کیوں

محرم تھا جب دل کا تیرے تو گھبرایا کیوں
کن اکھیوں سے دیکھ کے تجھ کو وہ شرمایا کیوں
آنکھ کی پُتلی کے رَستے سے دل میں آیا وہ
دل میں آ کراس نے دل کا چین چرایا کیوں
لاکھ حسینائیں تھیں تیرے چاروں اور تو پھر
پریوں کے جُھرمٹ میں چہرہ ایک ہی بھایا کیوں

مسلسل سامنا ہم کو شکستِ آرزو کا ہے

مسلسل سامنا ہم کو شکستِ آرزو کا ہے
ابھی تک سلسلہ قائم کسی کی جستجو کا ہے
ملے شیریں زباں ہم کو زمانے میں بہت، لیکن
کہاں وہ لطف اے ہمدم! جو تیری گفتگو کا ہے
نہیں، گرنے نہیں دیتے کسی کو بھی نظر سے وہ
جنہیں احساس تھوڑا سا بھی اپنی آبرو کا ہے

یہ سب ظہور شان حقیقت بشر میں ہے

یہ سب ظہورِ شانِ حقیقت بشر میں ہے
جو کچھ نہاں تھا تُخم میں، پیدا شجر میں ہے
ہر دَم جو خُونِ تازہ مِری چشمِ تر میں ہے
ناسُور دل میں ہے، کہ الٰہی جگر میں ہے
کھٹکا رقیب کا نہیں، آغوش میں ہے یار
اس پر بھی اِک کھٹک سی ہمارے جگر میں ہے

وا کردہ چشم دل صفت نقش پا ہوں میں

وا کردہ چشم دل صفتِ نقش پا ہوں میں
ہر رہگزر میں راہ تِری دیکھتا ہوں میں
مطلب جو اپنے اپنے کہے عاشقوں نے سب
وہ بُت بگڑ کے بول اُٹھا، کیا خدا ہوں میں
اے انقلابِ دہر، مِٹاتا ہے کیوں مجھے
نقشے ہزاروں مِٹ گئے ہیں تب بنا ہوں میں

وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا

وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا
ہم آج پِیر ہوئے، کیا کبھی شباب نہ تھا
شبِ فراق میں کیوں یارب انقلاب نہ تھا
یہ آسمان نہ تھا، یا یہ آفتاب نہ تھا
لحاظ ہم سے نہ قاتل کا ہو سکا دمِ قتل
سنبھل سنبھل کے تڑپتے وہ اضطراب نہ تھا

بے داد کے خوگر تھے، فریاد تو کیا کرتے

بے داد کے خوگر تھے، فریاد تو کیا کرتے
کرتے، تو ہم اپنا ہی، کچھ تم سے گِلہ کرتے
تقدیرِ محبت تھی، مر مر کے جئے جانا
جینا ہی مقدّر تھا، ہم مر کے بھی کیا کرتے
مہلت نہ مِلی غم سے، اتنی بھی کہ حال اپنا
ہم آپ کہا کرتے، ہم آپ سنا کرتے

جانتا ہوں کہ مرا دل مرے پہلو میں نہیں

جانتا ہوں کہ مِرا دل مِرے پہلو میں نہیں
پھر کہاں ہے جو تِرے حلقۂ گیسو میں نہیں
ایک تم ہو، تمہارے ہیں پرائے دل بھی
ایک میں ہوں کہ مِرا دل مِرے قابو میں نہیں
دور صیاد، چمن پاس، قفس سے باہر
ہائے وہ طاقتِ پرواز کہ بازو میں نہیں

اک سرگزشت غم ہے کہ اب کیا کہیں جسے

اِک سرگزشتِ غم ہے کہ اب کیا کہیں جسے
وہ وارداتِ قلبِ تمنا کہیں جسے
اب زندگی ہے نام اسی امیدِ دور کا
ٹوٹے ہوئے دِلوں کا سہارا کہیں جسے
دل حاصلِ حیات ہے اور دل کا ماحصل
وہ بے دلی، کہ جانِ تمنا کہیں جسے

اس کشمکش ہستی میں کوئی راحت نہ ملی جو غم نہ ہوئی

اس کشمکشِ ہستی میں کوئی راحت نہ مِلی جو غم نہ ہوئی
تدبیر کا حاصل کیا کہیے، تقدیر کی گردش کم نہ ہوئی
اللہ رے سکونِ قلب اس کا، دل جس نے لاکھوں توڑ دئیے
جس زلف نے دنیا برہم کی وہ آپ کبھی برہم نہ ہوئی
غم راز ہے ان کی تجلی کا جو عالم بن کر عام ہوا
دل نام ہے ان کی تجلی کا جو راز رہی عالم نہ ہوئی

Wednesday 12 February 2014

نہ میرے سخن کو سخن کہو نہ مری نوا کو نوا کہو

نہ میرے سخن کو سخن کہو نہ مِری نوا کو نوا کہو
میری جاں کو صحنِ حرم کہو مِرے دل کو غارِ حرا کہو
میں لِکھوں جو مدحِ شہہِ اُممؐ اور جبرائیلؑ بنیں قلم
میں ہوں ایک ذرۂ بے درہم مگر آفتابِ ثنا کہو
طلبِ شہہِؐ عربی کروں میں طوافِ حُبِ نبیؐ کروں
مگر ایک بے ادبی کروں مجھے اُس گلی کا گدا کہو

تیرگی رات بھر نہ جائے گی

تیرگی رات بھر نہ جائے گی
زندگی کیا گزر نہ جائے گی
کِھینچ دے گا سماج دِیواریں 
میرے گھر تک سحر نہ جائے گی
جم گئی گردِ عُمر چہرے پر
جھاڑنے سے اُتر نہ جائے گی

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
اے دل! کسے نصیب یہ توفیقِ اِضطراب
مِلتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی
تیرے کرم سے اے عالمِ حُسنِ آفریں
دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی

ناز بیگانگی میں کیا کچھ تھا

نازِ بیگانگی میں کیا کچھ تھا
حُسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا
لاکھ راہیں تھیں لاکھ جلوے تھے
عہدِ آوارگی میں کیا کچھ تھا
آنکھ کُھلتے ہی چُھپ گئی ہر شے
عالمِ بے خودی میں کیا کچھ تھا

وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی

وقت کی عُمر کیا بڑی ہو گی
اِک تیرے وصل کی گھڑی ہو گی
دستکیں دے رہی ہے پَلکوں پر
کوئی برسات کی جَھڑی ہو گی
کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
پُھول کی ایک پنکھڑی ہو گی

خون بادل سے برستے دیکھا

خون بادل سے برستے دیکھا
پُھول کو شاخ پہ ڈستے دیکھا
کتنے بیدار خیالوں کو یہاں
دامِ اخلاص میں پھنستے دیکھا
دل کا گُلشن کہ بیاباں ہی رہا
ایسا اُجڑا کہ نہ بستے دیکھا

ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے

ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے
کہ ہٹ جاؤں میں اپنے درمیاں سے
یہاں جو ہے تنفس ہی میں گُم ہے
پرندے اُڑ رہے ہیں شاخِ جاں سے
دریچہ باز ہے یادوں کا اور میں
ہَوا سُنتا ہوں پیڑوں کی زباں سے

ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں

ابھی اِک شور سا اُٹھا ہے کہیں
کوئی خاموش ہو گیا ہے کہیں
ہے کچھ ایسا کہ جیسے یہ سب کچھ
اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے کہیں 
تجھ کو کیا ہو گیا کہ چیزوں کو
کہیں رکھتا ہے، ڈھونڈتا ہے کہیں 

اس وقت تو یوں لگتا ہے

اس وقت تو یوں لگتا ہے

اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حُسن کی چِلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سُنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اِک آخری پھیرا

گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا

گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اُداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
گلیوں میں پِھرا کرتے تھے دو چار دِوانے
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا
منزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہی
ناداں ہی سہی، ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا

Saturday 8 February 2014

اے حسن بے پرواہ تجھے شبنم کہوں شعلہ کہوں

اے حُسنِ بے پروا تُجھے شبنم کہوں، شُعلہ کہوں
پُھولوں میں بھی شوخی تو ہے، کس کو مگر تُجھ سا کہوں
سانسوں میں ہے خُوشبو تِری، آنکھوں میں ہے جلوہ گری
کس شاخ کا غُنچہ ہے تُو، کس رنگ کا جھونکا کہوں
گیسُو اُڑے مہکی فضا، جادُو کریں آنکھیں تیری
سویا ہُوا منظر کہوں، یا جاگتا سَپنا کہوں

وحشی اسے کہو جسے وحشت غزل سے ہے

وحشی اسے کہو جسے وحشت غزل سے ہے
انساں کی لازوال محبت، غزل سے ہے
ہم اپنی ساری چاہتیں قربان کر چکے
اب کیا بتائیں، کتنی محبت غزل سے ہے
لفظوں کے میل جول سے کیا قربتیں بڑھیں
لہجوں میں نرم نرم شرافت، غزل سے ہے

کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کو خبر نہ ہو

کبھی یوں بھی آ مِری آنکھ میں کہ مِری نظر کو خبر نہ ہو
مجھے ایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہو
وہ بڑا رحیم و کریم ہے تجھے یہ صفت بھی عطا کرے
تجھے بُھولنے کی دعا کروں تو مِری دعا میں اثر نہ ہو
مِرے بازوؤں میں تھکی تھکی ابھی محوِ خواب ہے چاندنی
نہ اُٹھے ستاروں کی پالکی ابھی آہٹوں کا گزر نہ ہو

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر بھی رہا کرو

یونہی بے سبب نہ پِھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اُسے چُپکے چُپکے پڑھا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ مِلائے گا، جو گلے مِلو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے مِلا کرو
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اُسے بھولنے کی دعا کرو

خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ہواؤں میں

خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ہواؤں میں
مانگا تھے جسے دن رات ہواؤں میں
تم چھت پر نہیں آئے میں گھر سے نہیں نکلا
یہ چاند بہت بھٹکا ساون کی گھٹاؤں میں
اس شہر میں اک لڑکی بالکل ہے غزل جیسی
بجلی سی گھٹاؤں میں خوشبو سی ہواؤں میں

خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے

خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دِکھائی نہ دے
خطاوار سمجھے گی دُنیا تجھے
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے
ہنسو آج اتنا کہ اِس شور میں
صدا سِسکیوں کی سُنائی نہ دے

اداسی کا یہ پتھر آنسوؤں سے نم نہیں ہوتا

اُداسی کا یہ پتّھر آنسوؤں سے نَم نہیں ہوتا
ہزاروں جگنوؤں سے بھی اندھیرا کم نہیں ہوتا
کبھی برسات میں شاداب بیلیں سُوکھ جاتی ہیں
ہرے پیڑوں کے گرنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا
بہت سے لوگ دل کو اس طرح محفوظ رکھتے ہیں
کوئی بارش ہو، یہ کاغذ ذرا بھی نَم نہیں ہوتا

یہ زرد پتوں کی بارش میرا زوال نہیں

یہ زرد پتوں کی بارش میرا زوال نہیں
میرے بدن پہ کسی دوسرے کی شال نہیں
اُداس ہو گئی ایک فاختہ چہکتی ہوئی
کسی نے قتل کیا ہے، یہ انتقال نہیں
تمام عمر غریبی میں باوقار رہے
ہمارے عہد میں ایسی کوئی مثال نہیں

عبادتوں کی طرح میں یہ کام کرتا ہوں

عبادتوں کی طرح میں یہ کام کرتا ہوں
میرا اصول ہے، پہلے سلام کرتا ہوں
مخالفت سے میری شخصیت سنورتی ہے
میں دُشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں
میں جیب میں اپنا پتا نہیں رکھتا
سفر میں صرف یہی اہتمام کرتا ہوں

اب ہے ٹوٹا سا دل خود سے بیزار سا

اب ہے ٹُوٹا سا دل خود سے بیزار سا
اس حویلی میں لگتا تھا دربار سا
اس طرح ساتھ نِبھنا ہے دُشوار سا
میں بھی تلوار سا، تُو بھی تلوار سا
خوبصورت سی پاؤں میں زنجیر ہو
گھر میں بیٹھا رہا میں گرفتار سا

چراغ لے کے ترے شہر سے گزرنا ہے

چراغ لے کے تِرے شہر سے گزرنا ہے
یہ تجربہ بھی ہمیں بار بار کرنا ہے
میں وہ پہاڑ ہوں جو کٹ رہا ہوں پانی سے
یہ دل نہیں مِرے آنسوؤں کا جھرنا ہے
مِرے عزیزو! میں اُتری ندی کا لہجہ ہوں
مجھے چڑھے ہوئے دریا کو پار کرنا ہے

وقت رخصت کہیں تارے، کہیں جگنو آئے

وقتِ رُخصت کہیں تارے، کہیں جگنو آئے
ہار پہنانے مجھے پھول سے بازو آئے
بس گئی ہے مِرے احساس میں یہ کیسی مہک
کوئی خوشبو میں لگاؤں، تِری خوشبو آئے
میں نے دن رات خدا سے یہ دعا مانگی تھی
کوئی آہٹ نہ ہو مِرے در پہ اور تُو آئے

تیری جنت سے ہجرت کر رہے ہیں

تیری جنت سے ہِجرت کر رہے ہیں
فرشتے کیا بغاوت کر رہے ہیں
ہم اپنے جرم کا اقرار کر لیں
بہت دنوں سے یہ ہمّت کر رہے ہیں
وہ خود ہارے ہوئے ہیں زندگی سے
جو دنیا پہ حکومت کر رہے ہیں

Friday 7 February 2014

نہیں ہے اب کوئی منزل نہیں ہے جادہ کوئی

نہیں ہے اب کوئی منزل، نہیں ہے جادہ کوئی
اِرادے توڑ کے نِکلا ہے، بِالارادہ کوئی
میں رفتگاں کے بنائے مکاں میں رہتا ہوں
کسی کے خواب سے کرتا ہے اِستفادہ کوئی
ہوائے تُند کو شاید کبھی خبر بھی نہ ہو
یہیں کہیں تھا چراغوں کا خانوادہ کوئی

کشیدہ پر کو مخالف ہوا بھی ملتی ہے

کشِیدہ پَر کو، مُخالف ہَوا بھی مِلتی ہے
یہ وہ ہُنر ہے کہ جسکی سزا بھی مِلتی ہے
تِری شبیہ جو مِلتی نہیں کسی سے کبھی
کبھی کبھی کسی چہرے سے جا بھی مِلتی ہے
میں اپنے ساتھ بہت دُور جا نکلتا ہوں
اگر کبھی مجھے فرصت زرا بھی مِلتی ہے

پلٹ کے چاند سیہ رات میں نہیں آیا

پلٹ کے چاند، سِیہ رات میں نہیں آیا
سو پھر وہ ہاتھ، مِرے ہاتھ میں نہیں آیا
کِھلی وہ صبح، بنفشے کا پُھول ہو جیسے
طلائی رنگ، شروعات میں نہیں آیا
وہ ناچتا ہوا جنگل، وہ جاگتا ہوا خواب
وہ مور، پِھر مِرے باغات میں نہیں آیا

یہ لطف سیرِ سماوات میں نہیں آیا

یہ لُطف، سیرِ سماوات میں نہیں آیا
میں یوں ہی کارگۂ ذات میں نہیں آیا
سدا جو ساتھ رہا تھا، وہی ستارۂ سبز
سفر میں آئی ہوئی رات میں نہیں آیا
کمال یہ ہے کہ وہ بھی بدل رہا ہے مجھے
جو فرق میرے خیالات میں نہیں آیا

دیوار پہ رکھا ہوا مٹی کا دیا میں

دیوار پہ رکھا ہوا مٹی کا دِیا میں
سب کچھ کہا اور رات سے کچھ بھی نہ کہا میں
کچھ اور بھی مسکن تھے، تِرے دل کے علاوہ
لگتا ہے کہیں اور بھی مِسمار ہوا میں
اِس دُکھ کو تو میں ٹھیک بتا بھی نہیں پاتا
میں خود کو میسّر تھا، مگر مِل نہ سکا میں

بیعت کی صدی لمحۂ انکار سے کم ہے

بیعت کی صدی لمحۂ انکار سے کم ہے
سردار! تِری عمر سرِدار سے کم ہے
اس بات پہ شاہد ہے یہ مشکیزۂ خالی
اِک گھونٹ کی وُقعت مِرے پِندار سے کم ہے
حق یہ ہے کہ اِک نکتۂ پاراں کے سوا بھی
دربار میں جو کچھ ہے درِ یار سے کم ہے 

کوئی فکر لو نہیں دے رہی کوئی شعر تر نہیں ہو رہا

کوئی فکر لَو نہیں دے رہی، کوئی شعر تر نہیں ہو رہا
رہِ نعت میں کوئی آشنا، مِرا ہم سفر نہیں ہو رہا
میں دیارِ حرف میں مضمحل، میں شکستہ پا، میں شکستہ دل
مجھے ناز اپنے سخن پہ تھا، سو وہ کارگر نہیں ہو رہا
مِرے شعر اس کے گواہ ہیں، کہ حروف میری سپاہ ہیں
مگر اب جو معرکہ دل کا ہے، وہی مجھ سے سَر نہیں ہو رہا

گزر چلی ہے شب دل فگار آخری بار

گزر چلی ہے شبِ دل فگار، آخری بار
بچھڑنے والے ہیں، یاروں سے یار، آخری بار
دمک رہا ہے سحر کی جبیں پہ بوسۂ شب
تھپک رہی ہے صبا روئےِ یار، آخری بار
ذرا سی دیر کو ہے پتیوں پہ شیشۂ نم
گزر رہی ہے کرن، آر پار، آخری بار

جو تو نہیں تو مری کوئی زندگانی نہیں

جو تُو نہیں تو مِری کوئی زندگانی نہیں
نہیں، نہیں، مِرا مطلب یہ عمر فانی نہیں
وہ تِتلیوں کے پروں پر بھی پُھول کاڑھتا ہے
یہ لوگ کہتے ہیں اُس کی کوئی نِشانی نہیں
ہمارا کرب، کبھی رفتگاں سے پُوچھیے گا
ہزار شب ہے، مگر ایک بھی کہانی نہیں

کیسی دو رنگ ہے یہ شناسائی میرے ساتھ

کیسی دو رنگ ہے یہ شناسائی میرے ساتھ
میں تیرے ساتھ ہوں، مِری تنہائی میرے ساتھ
پھر ہمسفر کوئی بھی نہیں ہے، اگر نہ ہو
پِھرتی ہوئی یہ بادیہ پیمائی میرے ساتھ
اس بے کنار شب میں بہت دُور تک گئی
بُجھتے ہوئے دِئیے تِری بینائی میرے ساتھ

حوصلہ خود ہتھیار بنایا جا سکتا ہے

حوصلہ، خود ہتھیار بنایا جا سکتا ہے
شاخ کو بھی تلوار بنایا جا سکتا ہے
لوگو! یہ دن، راتیں کاٹنے والا دن ہے
یہ دن، پھر اک بار بنایا جا سکتا ہے
تنہا تنہا، پتی پتی، جینے والو
یہ صحرا، گُلزار بنایا جا سکتا ہے

چشم بے خواب پہ خوابوں کا اثر لگتا ہے

چشمِ بے خواب پہ خوابوں کا اثر لگتا ہے

کیسی پت جھڑ ہے کہ شاخوں پہ ثمر لگتا ہے

نیند اب چشمِ گراں بار کی دہلیز پہ ہے

جسم میں کھلتا ہوا خواب کا در لگتا ہے

مہلتِ عمر بس اتنی تھی کہ گزرا ہوا وقت

اک ڈھلکتے ہوئے آنسو کا سفر لگتا ہے

نظر کے بھید سب اہل نظر سمجھتے ہیں

نظر کے بھید، سب اہلِ نظر سمجھتے ہیں
جو بے خبر ہیں، اِنہیں بے خبر سمجھتے ہیں
نہ انکی چھاؤں میں برکت، نہ برگ و بار میں فیض
وہ خود نمود، جو خود کو شجر سمجھتے ہیں
انہوں نے جُھکتے ہوئے پیڑ ہی نہیں دیکھے
جو اپنے کاغذی پَھل کو ثمر سمجھتے ہیں

کمال ضبط کا یہ آخری ہنر بھی گیا

کمالِ ضبط کا، یہ آخری ہُنر بھی گیا 
میں آج ٹُوٹ کے رویا اور اُسکے گھر بھی گیا 
یہ دُکھ ہے اس کا کوئی ایک ڈھب تو ہوتا نہیں 
ابھی اُمڈ ہی رہا تھا کہ جی ٹھہر بھی گیا 
عجیب غم تھا، قبیلے کے حرفِ کار کا غم 
کہ بے ثمر بھی گیا لفظ، بے اثر بھی گیا 

یہ رہا تیرا تخت و تاج میاں

یہ رہا، تیرا تخت و تاج میاں
فقر کا اور ہے مزاج میاں
کیا کرے چاند، کیا کرے سُورج
کور چشمی کا کیا علاج میاں؟
جانے کس دَم ٹھہر گیا مجھ میں
رات اور دن کا اِمتزاج میاں 

عجب طلسم ہے دیوار و در میں رکھا ہوا

عجب طلِسم ہے، دیوار و در میں رکھا ہُوا 
کہ میرا گھر بھی ہے رختِ سفر میں رکھا ہوا 
نہ جانے کب مجھے اِذنِ سفر عطا کر دے 
میں ایک اشک ہوں اس چشمِ تر میں رکھا ہوا 
ہوائے تُند سے گُل کو بھی نِسبتیں ہیں وہی 
یہ اِک چراغ ہے طاقِ شجر میں رکھا ہوا 

وہ مدتوں کے بعد سر راہ مل گیا

وہ مُدّتوں کے بعد، سرِ راہ مِل گیا 
ایسا لگا کہ جیسے کوئی زخم چِھل گیا 
اس کے تو جیسے پاؤں زمیں نے پکڑ لیے
اور میں کسی شجر کی طرح جڑ سے ہِل گیا 
اس کے بھی لفظ جیسے مُقفّل سے ہو گئے 
میرے بھی لب پہ جیسے کوئی حرف سِل گیا 

ابر ملبوس آب تھا جیسے

ابر، ملبُوسِ آب تھا جیسے 
چاند کو کچھ حجاب تھا جیسے 
کل اچانک وہ یُوں مِلا مجھ کو 
کوئی پنہاں جواب تھا جیسے 
صفحہ صفحہ سفر تھا یادوں کا 
جلتی بُجھتی کتاب تھا جیسے 

وہ دن گزر گئے وہ کیفیت گزرتی نہیں

وہ دن گزر گئے، وہ کیفیت گزرتی نہیں 
عجیب دُھوپ ہے دیوار سے اُترتی نہیں 
ہرے درخت سے لِپٹی ہوئی یہ کاسنی بیل 
اُداس ہوتی ہے، لیکن اُداس کرتی نہیں 
ہوائے دردِ محبت کی تمکنت بھی تو دیکھ
کہ مُشتِ خاک ہے لیکن کبھی بِکھرتی نہیں 

حوصلہ چھوڑ گئی راہ گزر آخر کار

حوصلہ چھوڑ گئی راہگزر، آخرِ کار 
رہ گیا ساتھ مسافر کے سفر، آخر کار 
کوہ اسود نے بہت راستے روکے، لیکن 
شرق سے پُھوٹ پڑا چشمۂ زر، آخر کار 
اس کے پتوں پہ لکیریں تھیں ہتھیلی جیسی 
مدّتوں سبز رہا پیڑ ، مگر، آخر کار 

کبھی کبھی مری آنکھوں میں خواب کھلتا ہے

کبھی کبھی مِری آنکھوں میں خواب کھلتا ہے 
یہی وہ پُھول ہے جو زیرِ آب کھلتا ہے 
قبائے سُرخ، سنہرا بدن بھی چاہتی تھی
کہاں ہر ایک پہ رنگِ شراب کھلتا ہے 
یہ کون ہے کہ دریچے شگفت ہونے لگے 
جھروکے پُھوٹتے ہیں، بند باب کھلتا ہے 

سو گیا تھک کے چراغوں کو جگانے والا

سو گیا تھک کے چراغوں کو جگانے والا
کون آئے گا بھلا، کون ہے آنے والا
یہ جو دنیا ہے، یہی ہے میری اپنی دنیا
میں تِرے خواب سے باہر نہیں جانے والا
ایسا لگتا ہے کہیں گریہ کناں ہے مجھ میں
ایک آنسو مِرے دل تک اُتر آنے والا

دونوں آنکھوں کی اک اوک بنائی میں نے

دونوں آنکھوں کی اِک اوک بنائی میں نے 
پھر بہتے منظر سے پیاس بُجھائی میں نے
تم کو شاید اس کا بھی احساس نہ ہو گا
ریزہ ریزہ جوڑی تھی یکجائی میں نے
جیسے کوئی دو دو عمریں کاٹ رہا ہو 
جھیلی اپنی اور اس کی تنہائی میں نے

Thursday 6 February 2014

آپس میں بات چِیت کی زحمت کئے بغیر

آپس میں بات چِیت کی زحمت کئے بغیر
بس چل رہے ہیں ساتھ، شکایت کئے بغیر
آنکھوں سے کر رہے ہیں بیاں اپنی کیفیت
ہونٹوں سے حالِ دل کی وضاحت کئے بغیر
دونوں کو اپنی اپنی انائیں عزیز ہیں
لیکن، کسی کو نذرِ ملامت کئے بغیر

نہ گمان موت کا ہے، نہ خیال زندگی کا

نہ گمان موت کا ہے، نہ خیال زندگی کا
سو یہ حال اِن دنوں ہے مِرے دل کی بے کسی کا
میں شِکستہ بام و در میں جسے جا کے ڈھونڈتا تھا
کوئی یاد تھی کسی کی، کوئی نام تھا کسی کا
میں ہواؤں سے ہراساں، وہ گُھٹن سے دل گرِفتہ
میں چراغ تیرگی کا، وہ گُلاب روشنی کا

کبھی تو نے خود بھی سوچا کہ یہ پیاس ہے تو کیوں ہے

کبھی تُو نے خود بھی سوچا کہ یہ پیاس ہے، تو کیوں ہے
تُجھے پا کے بھی مِرا دل، جو اداس ہے، تو کیوں ہے​
مجھے کیوں عزیز تر ہے، یہ دُھواں دُھواں سا موسم
یہ ہوائے شامِ ہِجراں، مجھے راس ہے، تو کیوں ہے​
تُجھے کھو کے سوچتا ہوں، مِرے دامنِ طلب میں
کوئی خواب ہے تو کیوں ہے، کوئی آس ہے، تو کیوں ہے​

کوئی رقعہ نہ لفافے میں کلی چھوڑ گیا

کوئی رُقعہ، نہ لفافے میں کَلی چھوڑ گیا
بس اچانک وہ خموشی سے گلی چھوڑ گیا
جب دِیا 🪔 ہی نہ رہا، خوف ہو کیا معنی؟
خالی کمرے کی وہ کِھڑکی بھی کُھلی چھوڑ گیا
گُونجتے رہتے ہیں سناٹے اکیلے گھر میں
در و دیوار کو وہ ایسا دُکھی چھوڑ گیا

تیری رحمتوں کے دیار میں تیرے بادلوں کو پتا نہیں

تیری رحمتوں کے دیار میں تیرے بادلوں کو پتا نہیں
ابھی آگ سَرد ہوئی نہیں، ابھی اِک الاؤ جلا نہیں
میری بزمِ دِل تو اُجڑ چُکی، مِرا فرشِ جاں تو سِمٹ چُکا
سبھی جا چُکے مِرے ہم نشِیں، مگر ایک شخص گیا نہیں
در و بام سب نے سجا لیے، سبھی روشنی میں نہا لیے
مِری اُنگلِیاں بھی جُھلس گئیں، مگر اِک چراغ جلا نہیں

اب آنے والی ہے فصلِ بہار، سوچتے تھے

اب آنے والی ہے فصلِ بہار، سوچتے تھے
ہم اس طرح تو بہت اعتبارؔ سوچتے تھے
جگائے رکھتی تھی راتوں کو کیسی بے چینی
کسی کی بات پہ ہم کتنی بار سوچتے تھے
وہ سامنے ہے تو پِھر کچھ بھی کہہ نہیں پاتے
نہ تھا وہ پاس، تو باتیں ہزار سوچتے تھے

مری راتوں کی راحت دن کا اطمینان لے جانا

مِری راتوں کی راحت، دن کا اطمینان لے جانا
تمہارے کام آ جائے گا، یہ سامان لے جانا
تمہارے بعد کیا رکھنا اَنا سے واسطہ کوئی
تم اپنے ساتھ میرا عمر بھر کا مان لے جانا
شکستہ کے کچھ ریزے پڑے ہیں فرش پر، چُن لو
اگر تم جوڑ سکتے ہو، تو یہ گُلدان لے جانا

ابھی آگ پوری جلی نہیں، ابھی شعلے اونچے اٹھے نہیں​

ابھی آگ پُوری جلی نہیں، ابھی شعلے اُونچے اُٹھے نہیں​
سو کہاں کا ہوں میں غزل سَرا، مِرے خال و خد بھی بنے نہیں​
ابھی سِینہ زور نہیں ہُوا، میرے دل کے غم کا معاملہ ​
کوئی گہرا درد نہیں مِلا، ابھی ایسے چرکے لگے نہیں​
اس سَیلِ نُور کی نِسبتوں سے میرے دریچۂ دل میں آ ​
میرے طاقچوں میں ہے روشنی، ابھی یہ چراغ بُجھے نہیں​

تشنگی مورد الزام نہیں ہوتی تھی

تشنگی مُوردِ اِلزام نہیں ہوتی تھی
ان دنوں پیاس بہت عام نہیں ہوتی تھی
ہِجر میں فُرصتیں ہوتی تھیں غزل کہنے کی
زِیست یُوں وقفِ آلام نہیں ہوتی تھی
دن مہکتے تھے تِرے قُرب کے گُلزاروں میں
یُوں شرربار کبھی شام نہیں ہوتی تھی

جو خیال تھے نہ قیاس تھے، وہی لوگ مجھ سے بِچھڑ گئے

جو خیال تھے نہ قیاس تھے، وہی لوگ مجھ سے بِچھڑ گئے
جو محبتوں کی اساس تھے، وہی لوگ مجھ سے بِچھڑ گئے
جِنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل، وہی لوگ میرے ہیں ہمسفر
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے، وہی لوگ مجھ سے بِچھڑ گئے
مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے
میری عمر بھر کی جو پیاس تھے، وہی لوگ مجھ سے بِچھڑ گئے

یہی نہیں کہ فقط ہم ہی اضطراب میں ہیں

یہی نہیں کہ فقط ہم ہی اِضطراب میں ہیں
ہمارے بُھولنے والے بھی اِس عذاب میں ہیں
اِسی خیال سے، ہر شام جلد نیند آئی
کہ مجھ سے بِچھڑے ہوئے لوگ شہرِ خواب میں ہیں
وہی ہے رنگِ جنُوں، ترکِ ربط و ضبط پہ بھی
تِری ہی دُھن میں ہیں اب تک اُسی سراب میں ہیں

گئی رت کی وحشتوں کا یہ خراج مانگتی ہے

گئی رُت کی وحشتوں کا یہ خراج مانگتی ہے
کوئی کھیل تو نہیں ہے یہ غزل کی شاعری ہے
یہی سوچ، یہ نِدامت، مِرا دل نچوڑتی ہے
کہ حرُوفِ آرزو میں کسی رنگ کی کمی ہے
جو لہو لہو ہیں مصرعے، تو ہُنر نہیں ہے میرا
یہ بہارِ زخمِ دل ہے، یہ کمالِ جانکنی ہے

پھر اس کے جاتے ہی یہ دل سنسان ہو کر رہ گیا

پھر اس کے جاتے ہی یہ دل سنسان ہو کر رہ گیا
اچھا بھلا اِک شہر تھا، وِیران ہو کر رہ گیا
ہر نقش باطل ہو گیا، اب کے دیارِ ہجر میں
اِک زخم گزرے وقت کی مِیزان ہو کر رہ گیا
رُت نے مِرے چاروں طرف کھینچے حِصارِ بام ودر
یہ شہر پھر میرے لئے زِندان ہو کر رہ گیا

لب پہ نہ لائے دل کی کوئی بات اسے سمجھا دینا

لب پہ نہ لائے دل کی کوئی بات، اُسے سمجھا دینا
میں تو مرد ہوں اور وہ عورت ذات، اُسے سمجھا دینا
سَکھیاں باتوں باتوں میں ’’احوال‘‘ یقیناً پوچھیں گی
کرے نہ کوئی ایسی ویسی بات، اسے سمجھا دینا
چلتے پِھرتے باتیں کرتے، بے حد وہ محتاط رہے
چھوٹے شہر بھی ہوتے ہیں دیہات اُسے سمجھا دینا

تمہارے بعد اس دل کا کھنڈر اچھا نہیں لگتا

تمہارے بعد اس دل کا کھنڈر اچھا نہیں لگتا
جہاں رونق نہیں ہوتی وہ گھر اچھا نہیں لگتا
نیا اِک ہمسفر چاہوں تو آسانی سے مِل جائے
مگر مجھ کو یہ اندازِ سفر اچھا نہیں لگتا
کُھلی چھت پر بھی جا کر چاند سے کچھ گفتگو کر لو
غزل کہنا پسِ دیوار و در اچھا نہیں لگتا

Wednesday 5 February 2014

عجب حالات تھے میرے عجب دن رات تھے میرے

عجب حالات تھے میرے عجب دن رات تھے میرے
مگر میں مطمئن تھا اس لئے تم ساتھ تھے میرے
مِرے زر کے طلبگاروں کی نظریں ایسے اٹھتی تھیں
کہ لاکھوں انگلیاں تھیں اور ہزاروں ہاتھ تھے میرے
میں اِک پتھر کا گرد آلود بُت تھا ان کے مندر میں
نہ دل تھا میرے سینے میں نہ کچھ جذبات تھے میرے

نہ جانے ظرف تھا کم یا انا زیادہ تھی

نہ جانے ظرف تھا کم یا انا زیادہ تھی
کلاہ سر سے تو قد سے قبا زیادہ تھی
رمیدگی تھی تو پھر ختم تھا گریز اس پر
سپردگی تھی تو بے انتہا زیادہ تھی
غرور اس کا بھی کچھ تھا جدائیوں کا سبب
کچھ اپنے سر میں بھی شاید ہَوا زیادہ تھی

وہ بھی کیا دن تھے کہ پل میں کر دیا کرتے تھے ہم

وہ بھی کیا دن تھے کہ پَل میں کر دیا کرتے تھے ہم
عمر بھر کی چاہتیں ہر ایک ہرجائی کے نام
وہ بھی کیا موسم تھے جن کی نکہتوں کے ذائقے
لِکھ دیا کرتے تھے خال و خد کی رعنائی کے نام
وہ بھی صحبتیں تھیں جن کی مُسکراہٹ کے فسوں
وقف تھے اہلِ وفا کی بزم آرائی کے نام

Tuesday 4 February 2014

میں عشق ذات ہوں چہرہ بدل کے آئی ہوں

میں عشق ذات ہوں چہرہ بدل کے آئی ہوں
مجھے سنبھال میں کانٹوں پہ چل کے آئی ہوں
تجھے یہ زعم کہ تُو مرد ہے مگر میں بھی
جلا کے کشتیاں گھر سے نکل کے آئی ہوں
میں آج رات کی رانی نہیں کہ تُو مجھ کو
مسل ہی دے کہ میں صدیاں مسل کے آئی ہوں

رات کے پچھلے پہر نے کہہ دیا ہے آج بھی

رات کے پِچھلے پہر نے کہہ دِیا ہے آج بھی
عشق تو خونِ جِگر کو پی رہا ہے آج بھی
مُفلسی میں بُجھ گئی ہیں میرے فن کی مشعلیں
حرف کوئی دل میں لیکن جاگتا ہے آج بھی
بے ارادہ مرحلوں میں بانٹ دی ہے زندگی
فیصلوں کا ایک سُورج ڈھل گیا ہے آج بھی

بارِ گراں کا ماجرا چلتا رہا تھا رات بھر

بارِ گِراں کا ماجرا چلتا رہا تھا رات بھر
دشتِ جنُوں میں اِک دِیا جلتا رہا تھا رات بھر
تھا ساز محوِ جُستجُو تشنہ لبی سے ہار کر
دل رفتہ رفتہ گِیت میں ڈھلتا رہا تھا رات بھر
تب مُضطرب تھا اُس گھڑی دِیدہ وری کا ذوق بھی
اِک پُھول بوتل میں پڑا گَلتا رہا تھا رات بھر

تیور جبِین یار کے مبہم نہیں رہے

تیور جبِینِ یار کے مُبہم نہیں رہے
طے ہو گیا کہ آج ہم باہم نہیں رہے
وہ رات میری عُمر میں شامل نہ ہو سکی
جس رات میرے ساتھ تِرے غم نہیں رہے
پہلے تو موسموں کو مِری احتیاج تھی
رُخصت ہُوا تو شوق کے موسم نہیں رہے

شام کی ڈھلتی ہوئی پرچھائیوں کے تذکرے

شام کی ڈھلتی ہوئی پرچھائیوں کے تذکرے
کُو بہ کُو پھیلے مِری رُسوائیوں کے تذکرے
بُھولتا ہی جا رہا ہُوں میں کہانی کی طرح
وہ فریبِ آرزو، رعنائیوں کے تذکرے
زندگی میں بڑھ گئی ہیں محفلوں کی رونقیں
دل پہ کندہ ہیں مگر تنہائیوں کے تذکرے

لہجہ اداس آنکھ میں پرچھائیں زرد سی

لہجہ اُداس، آنکھ میں پرچھائیں زرد سی
جیسے جَمی ہو وقت کی خاموش گَرد سی
میں تو شبِ فراق سے ہارا نہ تھا، مگر
پُھولوں پہ اَوس پڑ گئی شعلہ نبرد سی
اس کو مِرے وطن کا پتا چل گیا ہے آج
صورت جو اُس نے دیکھ لی صحرا نورد سی

بھرا پڑا ہے یہاں پر نصاب لفظوں سے

بھرا پڑا ہے یہاں پر نِصاب لفظوں سے
لِکھا ہُوا ہے مگر سب خراب لفظوں سے
بَھلے شِکن ہی پڑی تھی ہر ایک صفحے پر
کوئی پِلا تو گیا ہے شراب لفظوں سے
سوال دل سے کِیا تھا وفا شعاروں نے
مگر شرر نے دِیا تھا جواب لفظوں سے

Monday 3 February 2014

وہ خود بھی پیاس کے سوکھے نگر میں بستا ہے

وہ خُود بھی پیاس کے سُوکھے نگر میں بستا ہے
جو اَبر بَن کے مِرے دشت پر برستا ہے
چھلک نہ جائے یہ پیمانہ اس کشاکش میں
کہ خُون موج میں ہے اور دل شکستہ ہے
نظر اٹھاؤں تو منزل کا فاصلہ ہے وہی
پلٹ کے دیکھوں تو پیچھے طویل رَستہ ہے

سلگ رہی ہے فضا سائباں کے ہوتے ہوئے

سُلگ رہی ہے فضا سائباں کے ہوتے ہوئے 
زمیں پہ اِتنے سِتم آسماں‌ کے ہوتے ہوئے 
کسی بھی گھاٹ نہ اُترا مرا سفینۂ دل 
ہَوا کے رُخ‌ پہ کُھلے بادباں‌ کے ہوتے ہوئے 
کہ جیسے اُس کو فضاؤں‌ سے خاص نِسبت ہو 
پرندہ اُڑتا رہا آشیاں کے ہوتے ہوئے 

زمین خشک فلک بادلوں سے خالی ہے

زمین خُشک، فلک بادلوں سے خالی ہے 
اِک ایک بُوند کا دشتِ نظر سوالی ہے 
یہ جنگِ صِدق و صفا یادگار ٹھہرے گی 
عدُو ہے تیغ بکف، میرا ہاتھ خالی ہے 
کوئی پڑاؤ نہیں‌ وقت کے تسلسل میں 
یہ ماہ، سال کی تقسیم تو خیالی ہے 

راحتیں کہاں ہوں گی کون سے نگر جائیں

راحتیں کہاں ہوں گی، کون سے نگر جائیں
کیوں نہ تیری آنکھوں کی جِھیل میں اُتر جائیں
کیوں نہ اِک الگ اپنا راستہ تراشیں ہم
کس کا نقشِ پا ڈھونڈیں کس کی راہ پر جائیں
اس ملول صورت کی تاب کیسے لاؤ گے
یوں نہ ہو کہ پھر آنکھیں آنسوؤں سے بھر جائیں

نہ تیری دسترس میں ‌کچھ نہ میرے اختیار میں

نہ تیری دسترس میں ‌کچھ، نہ میرے اِختیار میں
کہ ہم سبھی گِھرے ہوئے ہیں جبر کے حِصار میں
کسی نے جیسے روک لی ہو روز و شب کی گردشیں
ہمارے ساتھ وقت بھی رہا ہے اِنتظار میں
ہوائے دہر سے اماں مِلی ہے کس کو جانِ جاں
تمارا رنگ اُڑ گیا تو ہم ہیں کس شُمار میں

Sunday 2 February 2014

یہ سب زمین و زماں پھر بنانا چاہتا ہوں

یہ سب زمین و زماں پِھر بنانا چاہتا ہُوں
بِگڑ گیا ہے جہاں، پِھر بنانا چاہتا ہُوں
مِری نظر میں یہ دیوار و در نہیں ہیں درُست
سو میں گِرا کے مکاں پِھر بنانا چاہتا ہُوں
وہ جن میں ہوں نئے اِمکاں، نئے نئے شب و روز
میں اپنے وہم و گُماں پِھر بنانا چاہتا ہُوں

اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا

اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا
دیکھ اب بھی روشِ دِہر سے وِحشت کر جا
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے
اور خود عرصۂ ایّام سے ہِجرت کر جا
مانتا جس کو نہ ہو دل وہ عمل خود پہ گزار
جو فسانہ ہو اسے چھو کے حقیقت کر جا

نبض ایام ترے کھوج میں چلنا چاہے

نبضِ ایّام تِرے کھوج میں چلنا چاہے
وقت خود شیشۂ ساعت سے نکلنا چاہے
دستکیں دیتا ہے پیہم مِری شریانوں میں
ایک چشمہ کہ جو پتّھر سے اُبلنا چاہے
مجھ کو منظور ہے وہ سلسلۂ سنگِ گراں
کوہکن مجھ سے اگر وقت بدلنا چاہے

یوں تو وہ شکل کھو گئی گردش ماہ و سال میں

یوں تو وہ شکل کھو گئی گردشِ ماہ و سال میں
پھول ہے اک کِھلا ہوا حاشیۂ خیال میں
اب بھی وہ روئے دِلنشیں، زرد سہی، حسِیں تو ہے
جیسے جبِینِ آفتاب، مرحلۂ زوال میں
اب بھی وہ میرے ہمسفر ہیں روشِ خیال پر
اب وہ نشہ ہے ہِجر میں، تھا جو کبھی وصال میں

سنو جان، تم کو خبر تک نہیں

سُنو

جان
تم کو خبر تک نہیں
لوگ اکثر بُرا مانتے ہیں
کہ میری کہانی کِسی موڑ پر بھی
اندھیری گلی سے گزرتی نہیں

تم تو وفا شناس و محبت نواز ہو

ان کی شکایتوں کا لکھا میں نے یہ جواب

تم تو وفا شناس و محبت نواز ہو
ہاں میں دغا شِعار سہی، بے وفا سہی
تم کو تو ناز ہے دلِ اُلفت نصیب پر
میں ماجرائے درد سے ناآشنا سہی
ناآشنائے درد کو شکوہ سے کیا غرض
تم کو شکایتِ غمِ فرقت روا سہی

ذکر ان کا ابھی ہو بھی نہ پایا ہے زباں سے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

ذِکراُنؐ کا ابھی ہو بھی نہ پایا ہے زباں سے
دل میں یہ اُجالے اُتر آئے ہیں کہاں سے
لوں سانس بھی آہستہ کہ یہ جائے ادب ہے
تحریر کروں اسمِ نبیؐ، ہدیۂ جاں سے
کِرنیں سی چھٹک جائیں اسی حجرۂ دل میں
تُم اُنؐ کو پکارو تو "حضورؐ" دل و جاں سے

ہر شخص پریشان سا، حیراں سا لگے ہے

ہر شخص پریشان سا، حیراں سا لگے ہے
سائے کو بھی دیکھوں تو گریزاں سا لگے ہے
کیا آس تھی دل کو کہ ابھی تک نہیں ٹُوٹی
جھونکہ بھی ہوا کا ہمیں مہماں سا لگے ہے
خوشبو کا یہ انداز بہاروں میں نہیں تھا
پردے میں صبا کے کوئی ارماں سا لگے ہے

کمیاب ہے وفا، تو بہانے تراش لوں

کمیاب ہے وفا، تو بہانے تراش لُوں
چہرے نئے ہیں شہر پرانے تراش لُوں
نِسبت میری جبِیں کو اِنہیں پتھروں سے ہے
مُشکل نہ تھا کہ آئینہ خانے تراش لُوں
اوڑھے رہُوں میں جلتی ہوئی دُھوپ کی رِدا
اور موسموں کے گیت سہانے تراش لُوں

گلوں سی گفتگو کریں، قیامتوں کے درمیاں

گُلوں سی گفتگو کریں، قیامتوں کے درمیاں
ہم ایسے لوگ اب مِلیں حکایتوں کے درمیاں
ہتھیلیوں کی اَوٹ ہی چراغ لے چلوں ابھی
ابھی سحر کا ذکر ہے روایتوں کے درمیاں
جو دِل میں تھی نِگاہ سی، نِگاہ میں کِرن سی تھی
وہ داستاں اُلجھ گئی، وضاحتوں کے درمیاں

نوحہ؛ اگرچہ مرگ وفا بھی اک

نوحہ

اگرچہ مرگِ وفا بھی اِک
سانحہ ہے، لیکن یہ بے حِسی
اس سے بڑھ کے جانکاہ ہے
کہ جب ہم خود اپنے ہاتھوں
سے اپنی چاہت کو نامرادی
کے ریگزاروں میں دفن

قاتل قاتل چپ ہے

قاتل

قاتل چپ ہے
خوں آلود ہاتھ میں اب تک
خنجر تھر تھر کانپ رہا ہے
لوگوں کا انبوہ اسے
گھیرے میں لے کر

ہم بھی مانگیں مراد ہو کچھ تو

ہم بھی مانگیں مراد ہو کچھ تو
جب رہا تیرے بعد ہو کچھ تو
کیسے پیماں کہاں کے قول و قرار
اس ستم گر کو یاد ہو کچھ تو
کفر ہے ، بے جواز مے پینا
تُو ہو یا ابر و باد ہو کچھ تو

ہم ہیں ظلمت میں کہ ابھرا نہیں خورشید اب کے

ہم ہیں ظلمت میں کہ ابھرا نہیں خورشید اب کے
کوئی کرتا ہی نہیں رات کی تردید اب کے
کون سنتا تھا حدیثِ غمِ دِل یوں تو مگر
ہم نے چھیڑی ہے تِرے نام سے تمہید اب کے
پی گئے رِند کہ نایاب ہے صہبا، ورنہ
زہر تھی محتسبِ شہر کی تنقید اب کے

یاد آتا ہے تو کیوں اس سے گلہ ہوتا ہے

یاد آتا ہے تو کیوں اس سے گِلہ ہوتا ہے
وہ جو اِک شخص ہمیں بھول چکا ہوتا ہے
ہم تِرے لطف سے نادم ہیں کہ اکثر اوقات
دل کِسی اور کی باتوں سے دُکھا ہوتا ہے
ہاتھ پر ہاتھ نہ رکھ دِل کی صداقت کو پرکھ
ورنہ پیمانِ رفاقت سے بھی کیا ہوتا ہے

Saturday 1 February 2014

خود آپ اپنی نظر میں حقیر میں بھی نہ تھا

خود آپ اپنی نظر میں حقیر میں بھی نہ تھا
اس اعتبار سے اُس کا اسیر میں بھی نہ تھا
بنا بنا کے بہت اُس نے جی سے باتیں کیں
میں جانتا تھا مگر حرف گیر میں بھی نہ تھا
نبھا رہا ہے یہی وصفِ دوستی شاید
وہ بے مثال نہ تھا بے نظیر میں بھی نہ تھا

خود اپنے سائے پہ بارِ گراں تھے ہم جیسے

خود اپنے سائے پہ بارِ گراں تھے ہم جیسے
کھلا کہ شہر میں بس رائیگاں تھے ہم جیسے
ہمیں سے شب کے اندھیرے لپٹ کے سوئے تھے
کھلی جو دُھوپ تو خُود بے اماں تھے ہم جیسے
زمیں کے تن پہ ہمارے لہو کی چادر تھی
خود اپنی ذات میں اک آسماں تھے ہم جیسے

کبھی گریباں کے تار گنتے کبھی صلیبوں پہ جان دیتے

کبھی گریباں کے تار گنتے، کبھی صلیبوں پہ جان دیتے
گزر گئی زندگی ہماری، سدا یہی امتحان دیتے
بوقت شب خوں تمام بستی پہ خوف طاری تھا قاتلوں کا
سکوت شب کے اجاڑ گنبد میں ہم کہاں تک اذان دیتے
میں کس نگر کی ہوا سے پوچھوں میں کون صحرا کی خاک چھانوں
بچھڑنے والے کہیں تو اپنا سراغ رکھتے، نشان دیتے

دل تو وہ برگ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے

دل تو وہ برگِ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے
غم وہ آندھی ہے کہ صحرا بھی اڑا لے جائے
کون لایا تِری محفل میں, ہمیں ہوش نہیں
کوئی آئے تِری محفل سے اٹھا لے جائے
اور سے اور ہوئے جاتے ہیں معیارِ وفا
اب متاعِ دل و جاں بھی کوئی کیا لے جائے

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری؛ محشر لکھنوی

تضمین بر لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری 
زندگی بم سے ہو محفوظ خدایا میری 
میں جو دفتر کے لئے گھر سے نکل کر جاؤں 
روز مرّہ کی طرح خیر سے واپس آؤں 
نہ کوئی بم کے دھماکے سے اُڑا دے مجھ کو 
مُفت میں جامِ شہادت نہ پِلا دے مُجھ کو 

مار ڈالا حسرتوں کے غم نے اے محشر ہمیں

نوحۂ حیات

مار ڈالا حسرتوں کے غم نے اے محشرؔ ہمیں
چند دن میں ختم ہے اپنا بھی دورانِ حیات
گھٹ گیا زورِ جوانی، ہو گئے اعضا ضعیف
کون اب سر پر اُٹھائے بارِ احسانِ حیات
خیریت سے جیتے جیتے ہو گئے چالیس سال
اب کہاں وہ روز و شب کہئے جنہیں جانِ حیات

روح کو راضی کیا میں نے تو راضی دل نہ تھا

رُوح کو راضی کیا میں نے تو راضی دل نہ تھا
 ورنہ اُٹھنا محفلِ ہستی سے کچھ مشکل نہ تھا
 چار آنکھیں ہوتے ہی قابو میں گویا دل نہ تھا
 کہہ گزرنا ورنہ حالِ ہجر کچھ مشکل نہ تھا
 سُننے والے میرا قصہ سُن کے یوں دیتے ہیں داد
 یا تو یہ زندہ نہ تھا، یا پاس اس کے دل نہ تھا

کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں

کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں
عدم کو جس نے وجُود بخشا
وجُود کو پھر نمُود بخشا
نمُود کو تازگی عطا کی
عطا کی حد حشر سے ملا دی

جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی

جل بھی چکے پروانے، ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
تاروں کی ضیا دل میں اک آگ لگاتی ہے
آرام سے راتوں کو سوتے نہیں سودائی
راتوں کی اداسی میں خاموش ہے دل میرا
بے حس ہیں تمنائیں، نیند آئی کہ موت آئی

جسے بار بار ملے تھے تم وہ میرے سوا کوئی اور تھا

جسے بار بار مِلے تھے تم، وہ میرے سوا کوئی اور تھا
مِرے دل کو تاب نظر کہاں، تمہیں دیکھتا کوئی اور تھا
میں فریب خوردۂ راہِ غم، چلا سکے ساتھ قدم قدم
مِرے ہمسفر نہیں جانتے، مِرا راستہ کوئی اور تھا
گل تازہ یہ تِرا رنگ و بُو، ہَوا سب سے بڑھ کے تِرا عدو
کسی اور نے تجھے چن لیا، تجھے چاہتا کوئی اور تھا

ہم اپنے خواب کیوں بیچیں

ہم اپنے خواب کیوں بیچیں؟

فقیرانہ روِش رکھتے تھے
لیکن اس قدر نادار بھی کب تھے
کہ اپنے خواب بیچیں
ہم اپنے زخم آنکھوں میں لئے پِھرتے تھے
لیکن روکشِ بازار کب تھے

محاصرہ میرے غنِیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے

محاصرہ 

میرے غنِیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں میرے گِرد لشکری اس کے
فصیلِ شہر کے ہر بُرج، ہر مینارے پر
کماں بدست سِتادہ ہیں عسکری اس کے
وہ برقِ لہر، بجھا دی گئی ہے جس کی تپش
وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی

آسودگئ شوق کا ساماں نہ کر سکے

آسودگئ شوق کا ساماں نہ کر سکے
جلوے مِری نگاہ پہ احساں نہ کر سکے
تم نے مسرتوں کے خزانے لُٹا دیے
لیکن علاجِ تنگئ داماں نہ کر سکے
آنکھوں سے ٹُوٹتے رہے تارے تمام رات
لیکن کسی کو زینتِ داماں نہ کر سکے

تم نہ مانو، مگر حقیقت ہے

تم نہ مانو، مگر حقیقت ہے
 عشق انسان کی ضرورت ہے
 کچھ تو دل مُبتلائے وحشت ہے
 کچھ تِری یاد بھی قیامت ہے
میرے محبوب مجھ سے جُھوٹ نہ بول
 جُھوٹ صورت گرِ صداقت ہے