Thursday, 6 February 2014

تیری رحمتوں کے دیار میں تیرے بادلوں کو پتا نہیں

تیری رحمتوں کے دیار میں تیرے بادلوں کو پتا نہیں
ابھی آگ سَرد ہوئی نہیں، ابھی اِک الاؤ جلا نہیں
میری بزمِ دِل تو اُجڑ چُکی، مِرا فرشِ جاں تو سِمٹ چُکا
سبھی جا چُکے مِرے ہم نشِیں، مگر ایک شخص گیا نہیں
در و بام سب نے سجا لیے، سبھی روشنی میں نہا لیے
مِری اُنگلِیاں بھی جُھلس گئیں، مگر اِک چراغ جلا نہیں
غمِ زِندگی! تِری راہ میں، شبِ آرزُو! تِری چاہ میں
جو اُجڑ گیا وہ بسا نہیں، جو بِچھڑ گیا وہ مِلا نہیں
جو دِل و نظر کا سُرُور تھا میرے پاس رہ کے بھی دُور تھا
وہی ایک گُلاب اُمید کا، میری شاخِ جاں پہ کِھلا نہیں
پسِ کارواں، سرِ رہگُزر، میں شِکستہ پا ہُوں تو اِس لیے
کہ قدم تو سب سے مِلا لیے، میرا دل کِسی سے مِلا نہیں
میرا ہمسفر جو عجِیب ہے، تو عجِیب تر ہُوں مَیں آپ بھی
مُجھے منزِلوں کی خبر نہیں، اُسے راستوں کا پتہ نہیں

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment