Wednesday 19 February 2014

جب بھی دیکھا مرے کردار پہ دھبا کوئی

جب بھی دیکھا مِرے کردار پہ دھبّا کوئی
دیر تک بیٹھ کے تنہائی میں رویا کوئی
لوگ ماضی کا بھی اندازہ لگا لیتے ہیں
مجھ کو تو یاد نہیں کل کا بھی قصہ کوئی
بے سبب آنکھ میں آنسو نہیں آیا کرتے
آپ سے ہو گا یقیناً مِرا رِشتہ کوئی
یاد آنے لگا ایک دوست کا برتاؤ مجھے
ٹُوٹ کر گر پڑا جب شاخ سے پتّہ کوئی
بعد میں ساتھ نِبھانے کی قسم کھا لینا
دیکھ لو جلتا ہوا پہلے پتنگا کوئی
اس کو کچھ دیر سُنا لیتا ہوں رودادِ سفر
راہ میں جب کبھی مِل جاتا ہے اپنا کوئی
کیسے سمجھے گا بِچھڑنا وہ کسی کا راناؔ
ٹُوٹتے دیکھا نہیں جس نے ستارہ کوئی

منور رانا

No comments:

Post a Comment