Wednesday 19 February 2014

نشانہ آزمایا جا رہا ہے

نشانہ آزمایا جا رہا ہے
ہمیں ناحق ستایا جا رہا ہے
جلا کر چل دئیے جو آشیاں کو
انہیں پھر سے بلایا جا رہا ہے
جسے لکھا ہمارے دشمنوں نے
وہ نغمہ گنگنایا جا رہا ہے
چراغِ راہ تو بجھ ہی چکے تھے
چراغِ جاں بجھایا جا رہا ہے
یہاں جمہوریت کا نام لے کر
تماشا کیا دکھایا جا رہا ہے
نوالہ چھین کر محنت کشوں سے
نوابوں کو کِھلایا جا رہا ہے
غضب خالی خزانہ ہے جسے یوں
دو ہاتھوں سے لٹایا جا رہا ہے
عجب کھانے کی عادت ہو گئی ہے
کہ اِک دُوجے کو کھایا جا رہا ہے
خدا کے نام پہ کر کے تجارت
سکونِ قلب پایا جا رہا ہے
زباں بندی کی قیمت لگ رہی ہے
قلم سُولی چڑھایا جا رہا ہے
خلیفہ نرم دل ہیں رو پڑیں گے
غریبوں کو بھگایا جا رہا ہے
گزرگاہ ہے جہاں، منزل نہیں ہے
رُکا نہ اِک، جو آیا، جا رہا ہے

ابن منیب
نوید رزاق بٹ

No comments:

Post a Comment