Wednesday 19 February 2014

اک ذرا سن تو مہکتے ہوئے گیسو والی

اِک ذرا سن تو مہکتے ہوئے گیسُو والی
راہ میں کون دکاں پڑتی ہے خوشبو والی
پھر یہ کیوں ہے کہ مجھے دیکھ کے رَم خوردہ ہے
تیری آنکھوں میں تو وحشت نہیں آہو والی
دیکھنے میں تو ہیں سادہ سے خد و خال مگر
لوگ کہتے ہیں کوئی بات ہے جادو والی
گفتگو ایسی کہ بس دل میں اترتی جائے
نہ تو پُر پیچ، نہ تہ دار، نہ پہلو والی
ایک منظر کی طرح دل پہ منقّش ہے ابھی
اِک ملاقات سرِ شام لبِ جُو والی
درد ایسا ہے کہ بجھتا ہے، چمک جاتا ہے
دل میں اِک آگ سی ہے آگ بھی جگنو والی
جیسے اِک خواب سرائے سے گزر ہو تیرا
کوئی پازیب چھنک جاتی ہے گھنگرو والی
زعم چاہت کا تھا دونوں کو، مگر آخرِکار
آ گئی بیچ میں دیوار مَن و تو والی
ایسا لگتا ہے کہ اب کے جو غزل میں نے کہی
آخری چیخ ہے دَم توڑتے آہو والی
اِک نِگاہِ غلط انداز ہی اے جانِ فراز
شوق مانگے ہے خلش تیرِ ترازو والی

احمد فراز

No comments:

Post a Comment