Saturday 22 February 2014

اس دنیا میں اپنا کیا ہے

اس دنیا میں اپنا کیا ہے
کہنے کو سب کچھ اپنا ہے
یوں تو شبنم بھی دریا ہے
یوں تو دریا بھی پیاسا ہے
یوں تو ہر ہیرا بھی کنکر
یوں تو مٹی بھی سونا ہے
منہ دیکھے کی باتیں ہیں سب
کس نے کس کو یاد کیا ہے
تیرے ساتھ گئی وہ رونق
اب اس شہر میں کیا رکھا ہے
بات نہ کر صورت تو دکھا دے
تیرا اس میں کیا جاتا ہے
دھیان کے آتش دان میں ناصرؔ
بُجھے دِنوں کا ڈھیر پڑا ہے

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment