عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں
رات بستر پہ میں سوتا نہیں مر جاتا ہوں
اکثر اوقات بھرے شہر کے سناٹے میں
اس قدر زور سے ہنستا ہوں کہ ڈر جاتا ہوں
دل ٹھہر جاتا ہے بھولی ہوئی منزل میں کہیں
میں کسی دوسرے رَستے سے گزر جاتا ہوں
سمٹا رہتا ہوں بہت حلقۂ احباب میں، مَیں
چار دیواری میں آتے ہی بکھر جاتا ہوں
میرے آنے کی خبر صرف دِیا رکھتا ہے
میں ہواؤں کی طرح ہو کے گزر جاتا ہوں
میں نے جو اپنے خلاف آج گواہی دی ہے
وہ تِرے حق میں نہیں ہے تو مُکر جاتا ہوں
رات بستر پہ میں سوتا نہیں مر جاتا ہوں
اکثر اوقات بھرے شہر کے سناٹے میں
اس قدر زور سے ہنستا ہوں کہ ڈر جاتا ہوں
دل ٹھہر جاتا ہے بھولی ہوئی منزل میں کہیں
میں کسی دوسرے رَستے سے گزر جاتا ہوں
سمٹا رہتا ہوں بہت حلقۂ احباب میں، مَیں
چار دیواری میں آتے ہی بکھر جاتا ہوں
میرے آنے کی خبر صرف دِیا رکھتا ہے
میں ہواؤں کی طرح ہو کے گزر جاتا ہوں
میں نے جو اپنے خلاف آج گواہی دی ہے
وہ تِرے حق میں نہیں ہے تو مُکر جاتا ہوں
انجم سلیمی
No comments:
Post a Comment