Monday 24 February 2014

عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں

عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں
رات بستر پہ میں سوتا نہیں مر جاتا ہوں
اکثر اوقات بھرے شہر کے سناٹے میں
اس قدر زور سے ہنستا ہوں کہ ڈر جاتا ہوں
دل ٹھہر جاتا ہے بھولی ہوئی منزل میں کہیں
میں کسی دوسرے رَستے سے گزر جاتا ہوں
سمٹا رہتا ہوں بہت حلقۂ احباب میں، مَیں
چار دیواری میں آتے ہی بکھر جاتا ہوں
میرے آنے کی خبر صرف دِیا رکھتا ہے
میں ہواؤں کی طرح ہو کے گزر جاتا ہوں
میں نے جو اپنے خلاف آج گواہی دی ہے
وہ تِرے حق میں نہیں ہے تو مُکر جاتا ہوں

انجم سلیمی

No comments:

Post a Comment