Wednesday 26 February 2014

دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا

دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا
وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن
جیسا بھی مِل گیا ہمیں ویسا پہن لیا
فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی
عُریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا
گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی
ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا
بیدلؔ لباسِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو اُلٹا پہن لیا

بیدل حیدری

No comments:

Post a Comment