Wednesday 26 February 2014

دیر سے منتظر ہوں میں، بیٹھ نہ یوں حجاب میں

دیر سے منتظر ہوں میں، بیٹھ نہ یوں حجاب میں
تاروں کی چھاؤں ہے، در آ میرے دلِ خراب میں
کس سے کہوں میں داستاں طولِ شب فراق کی
جاگ رہا ہوں ایک میں، سارا جہاں ہے خواب میں
اُس سے ڈرو وہ فتنۂ بزمِ حیات جسے
شیب میں ‌تابِ مے نہ ہو، عشق نہ ہو شباب میں
عرش سے آئی یہ صدا، بخش دیے تِرے گناہ
یاد کیا کسی کو یوں کل شبِ ماہتاب میں
یوں تو حریمِ ناز میں کتنے ہی دل ہوئے تھے پیش
حُکمِ شکستگی ہوا میرے ہی دل کے باب میں
مضطر و بے قرار ہوں جوشؔ وہ خود مِرے لئے
کاش اک ایسی رَو بھی ہو دہر کے انقلاب میں​

جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment