Wednesday 26 February 2014

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاکِ صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغِ بیداد پہ، یا لاشہ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

لاکھ بیٹھے کوئی چُھپ چُھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں‌ کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اوڑھاتی رہیں ظلمت کا نقاب
لے کے ہر بُوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رُکتا نہیں سنگینوں‌ سے
سر اُٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں‌ سے
ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مِٹاؤ تو مِٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بُجھاؤ تو بُجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے​

ساحر لدھیانوی

No comments:

Post a Comment