Wednesday 26 February 2014

یہ ہم نے دھوپ جو اوڑھی ہوئی ہے

یہ ہم نے دھوپ جو اوڑھی ہوئی ہے
ہماری چھاؤں چوری ہو گئی ہے
چلو وہ خواب تو بننے لگا ہے
چلو کچھ بات تو آگے بڑھی ہے
ابھی نیچی ہے سطحِ دیدۂ تر
ابھی دریا میں پانی کی کمی ہے
یہ جس کشتی میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں
یہی تو ایک کشتی رہ گئی ہے
ہم اپنی داستاں کیسے سمیٹیں
ہماری داستاں بکھری ہوئی ہے
مِرے چاروں طرف ہی منزلیں ہیں
نجانے میری منزل کون سی ہے
میں اس فن کی بلندی پر ہوں بیدلؔ
جہاں تخلیقِ فن خود بولتی ہے

بیدل حیدری​

No comments:

Post a Comment