Saturday, 22 February 2014

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

سُنا ہے

سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سُنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوّے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سُنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سُنا ہے کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسی مان لیتی ہیں
کوئی طوفان آ جائے، کوئی پُل ٹُوٹ جائے
تو کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں
سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندا، جلیل و معتبر
دانا و بینا، منصف و اکبر
میرے اس شہر میں
اب جنگلوں ہی کا کوئی دستور نافذ کر
سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

زہرا نگاہ  

No comments:

Post a Comment