میرے گیت
میں شاعر ہوں ، مجھے فطرت کے نظاروں سے اُلفت ہے
مِرا دل، دشمنِ نغمہ سرائی ہو نہیں سکتا
مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
مِرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا
جواں ہوں میں، جوانی لغزشوں کا ایک طوفاں ہے
مِری باتوں میں رنگِ پارسائی ہو نہیں سکتا
مِرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے، تو اتنی ہے
کہ جب میں دیکھتا ہوں بُھوک کے مارے کسانوں کو
غریبوں، مفلسوں کو، بے کسوں کو، بے سہاروں کو
سسکتی نازنینوں کو، تڑپتے نوجوانوں کو
حکومت کے تشدد کو، امارت کے تکبر کو
کسی کے چیتھڑوں کو، اور شہنشاہی خزانوں کو
تو دل تابِ نشاطِ بزمِ عشرت لا نہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا
مِرا دل، دشمنِ نغمہ سرائی ہو نہیں سکتا
مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
مِرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا
جواں ہوں میں، جوانی لغزشوں کا ایک طوفاں ہے
مِری باتوں میں رنگِ پارسائی ہو نہیں سکتا
مِرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے، تو اتنی ہے
کہ جب میں دیکھتا ہوں بُھوک کے مارے کسانوں کو
غریبوں، مفلسوں کو، بے کسوں کو، بے سہاروں کو
سسکتی نازنینوں کو، تڑپتے نوجوانوں کو
حکومت کے تشدد کو، امارت کے تکبر کو
کسی کے چیتھڑوں کو، اور شہنشاہی خزانوں کو
تو دل تابِ نشاطِ بزمِ عشرت لا نہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا
ساحر لدھیانوی
No comments:
Post a Comment