جو شہر مکینوں کو اماں بھی نہيں دیتے
وہ اگلے زمانوں کو نشاں بھی نہيں دیتے
ہر روز سجاتے ہيں سوا نیزے پہ سورج
رہنے کے لیے اور جہاں بھی نہيں دیتے
ہر روز کٹا دیتے ہيں جو فصل سروں کی
سڑکوں پہ پڑے جسم بھی اب چیخ رہے ہیں
اُجڑے ہوئے لوگوں کو مکاں بھی نہيں دیتے
افلاک کی رفتار بھی اب تیز ہے کتنی
گردش کے سوا کوئی زماں بھی نہيں دیتے
ٹھہری ہوں جہاں آ کے لہو رنگ بہاریں
وہ اپنے چناروں کو خزاں بھی نہيں دیتے
نیلما درانی
No comments:
Post a Comment