Friday 28 February 2014

آج جانے کی ضد نہ کرو

فلمی گیت

آج جانے کی ضِد نہ کرو
یونہی پہلو میں بیٹھے رہو
ہائے مر جائیں گے، ہم تو لُٹ جائیں گے
ایسی باتیں کیا نہ کرو
آج جانے کی ضِد نہ کرو

تم ہی سوچو ذرا، کیوں نہ روکیں تمہیں
جان جاتی ہے جب اُٹھ کے جاتے ہو تم
تم کو اپنی قسم! جانِ جاں
بات اتنی مِری مان لو
وقت کی قید میں زندگی ہے، مگر
چند گھڑیاں یہی ہیں جو آزاد ہیں
ان کو کھو کر ابھی جانِ جاں
عمر بھر نہ ترستے رہو
کتنا معصوم و رنگین ہے یہ سماں
حُسن اور عشق کی آج معراج ہے
کل کی کس کو خبر جانِ جاں
روک لو آج کی رات کو

فیاضؔ ہاشمی


فریدہ خانم نے یہ غزل بہت عمدگی سے گائی ہے۔

No comments:

Post a Comment