Sunday 16 February 2014

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی

عشق مجھ کو نہیں، وحشت ہی سہی
میری وحشت، تِری شہرت ہی سہی
قطع کیجے نہ، تعلّق ہم سے
کچھ نہیں ہے، تو عداوت ہی سہی
میرے ہونے میں، ہے کیا رُسوائی
اے، وہ مجلس نہیں، خلوت ہی سہی
ہم بھی دُشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی
اپنی ہستی ہی سے ہو، جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں، غفلت ہی سہی
عمر ہرچند کہ ہے برق خرام
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی
ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق، مصیبت ہی سہی
کچھ تو دے، اے فلکِ ناانصاف
آہ و فریاد کی رُخصت ہی سہی
یار سے چھیڑ چلی جائے، اسدؔ
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی

مرزا غالب

No comments:

Post a Comment