Wednesday, 26 February 2014

تاج، تیرے لئے اک مظہرِ الفت ہی سہی

تاج محل

تاج، تیرے لئے اِک مظہرِ اُلفت ہی سہی
تُجھ کو اس وادئ رنگیں‌ سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب! کہیں اور مِلا کر مجھ سے
بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ پہ ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ اُلفت بھری رُوحوں کا سفر کیا معنی

مِری محبوب پسِ پردۂ تشہیرِ وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کے مقابر سے بہلنے والی
مُردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گِنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لئے تشہیر کا ساماں نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر، یہ فصیلیں، یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں تِرے اور مِرے اجداد کا خوں

میری محبوب! انہیں بھی تو محبت ہو گی
جن کی صنائی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ چلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش در و دیوار، یہ محراب، یہ طاق
اِک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب! کہیں اور مِلا کر مجھ سے

ساحر لدھیانوی

No comments:

Post a Comment