یہ بات، یہ تبسّم، یہ ناز، یہ نگاہیں
آخر تمہیں بتاؤ کیوں کر نہ تم کو چاہیں
اب سر اُٹھا کہ میں نے شکوؤں سے ہات اُٹھایا
مر جاؤں گا ستمگر، نیچی نہ کر نگاہیں
کچھ گُل ہی سے نہیں ہے رُوحِ نمو کو رغبت
اللہ ری دلفریبئ جلوؤں کے بانکپن کی
محفل میں وہ جو آئے کج ہو گئیں کلاہیں
یہ بزم جوشؔ، کس کے جلوؤں کی رہگزر ہے
ہر ذرّے میں ہیں غلطاں اُٹھتی ہوئی نگاہیں
جوش ملیح آبادی
No comments:
Post a Comment