Wednesday 26 February 2014

یہ بات یہ تبسم یہ ناز یہ نگاہیں

یہ بات، یہ تبسّم، یہ ناز، یہ نگاہیں 
آخر تمہیں بتاؤ کیوں کر نہ تم کو چاہیں
اب سر اُٹھا کہ میں نے شکوؤں سے ہات اُٹھایا
مر جاؤں گا ستمگر، نیچی نہ کر نگاہیں
کچھ گُل ہی سے نہیں‌ ہے رُوحِ نمو کو رغبت
گردن میں خار کی بھی ڈالے ہوئے ہے بانہیں
اللہ ری دلفریبئ جلوؤں‌ کے بانکپن کی
محفل میں‌ وہ جو آئے کج ہو گئیں کلاہیں
یہ بزم جوشؔ، کس کے جلوؤں ‌کی رہگزر ہے
ہر ذرّے میں ہیں‌ غلطاں اُٹھتی ہوئی نگاہیں​

جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment