جل جانے کی حسرت بھی ہو پانی میں بھی رہنا
کچھ سہل نہیں عہدِ جوانی میں بھی رہنا
یہ کیا کہ رہے تازہ رفاقت کی للک بھی
اور محو کسی یاد پرانی میں بھی رہنا
کردار ہی ایسا تھا کہ اے صاحبِ تمثیل
اے دل تِرے قاتل بھی ہمی، اور ہمی کو
ہر وقت تِری مرثیہ خوانی میں بھی رہنا
دیکھو تو کوئی اُس کو کہ جوں موج میں دریا
ہر اِک لگاوٹ بھی، روانی میں بھی رہنا
کچھ مرحمتِ عشق ہے، کچھ تربیتِ فن
الفاظ کی سج دھج کا معانی میں بھی رہنا
بے کار الجھتے ہو فرازؔ! اہلِ جہاں سے
شکوہ بھی نہنگوں سے ہے، پانی میں بھی رہنا
احمد فراز
No comments:
Post a Comment