Tuesday 18 February 2014

خاموش ہو کیوں داد جفا کیوں نہیں دیتے

خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بِسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے
وحشت کا سبب روزن زندان تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بُجھا کیوں نہیں دیتے
ایک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو درد بڑھا کیوں نہیں دیتے
مُنصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مُجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے
رہزن ہو تو حاضر ہے متاعِ دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتا کیوں نہیں دیتے
کیا بِیت گئی اب کے فرازؔ اہلِ چمن پر
یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment