Monday 24 February 2014

درد وراثت پا لینے سے نام نہیں چل سکتا

درد وراثت پا لینے سے نام نہیں چل سکتا
عشق میں بابا ایک جنم سے کام نہیں چل سکتا
بہت دنوں سے مجھ میں ہے کیفیت رونے والی
درد فراواں سینے میں کہرام نہیں چل سکتا
تہمتِ عشق مناسب ہے اور ہم پر جچتی ہے
ہم ایسوں پر اور کوئی الزام نہیں چل سکتا
چم چم کرتے حُسن کی تم جو اشرفیاں لائے ہو
اس میزان میں یہ دنیاوی دام نہیں چل سکتا
آنکھ جھپکنے کی مہلت بھی کم ملتی ہے انجمؔ
فقر میں کوئی تن آساں دو گام نہیں چل سکتا

انجم سلیمی

No comments:

Post a Comment