Friday 28 February 2014

لے کے صدیوں کی پیاس جنگل میں

لے کے صدیوں کی پیاس جنگل میں
چاند اترا اداس جنگل میں
کب شبوں کا طلسم ٹوٹے گا
کب کِھلے گی کپاس جنگل میں
لے گئی شہر سے بھگا کے مجھے
خود سے ملنے کی آس جنگل میں
کوئی رستہ نظر نہیں آتا
سر سے اونچی ہے گھاس جنگل میں
شاخ در شاخ پھیلتا جائے
دکھ کا پیلا ہراس جنگل میں
ناچتی ہے تمام شب ناصرؔ
تیرگی بے لباس جنگل میں

نصیر احمد ناصر 

No comments:

Post a Comment