Friday, 21 February 2014

سوچوں کو منجدھار کیا خود کو پتوار کیا

سوچوں کو منجدھار کیا، خود کو پتوار کیا
دل کا دریا پار کیا اور پہلی بار کیا
ہجر کی پہلی شام پڑے دو بھاری کام پڑے
اس کو بھی تیار کیا، دل بھی تیار کیا
قطرہ قطرہ جھیل بنیں پھر آنکھیں نیل بنیں
مجھ کو بہتی دھار کیا، ساون کی تار کیا
دل کی سبتک آگ ہوئی، جاں دیپک راگ ہوئی
شعلوں سا اظہار کیا، لہجہ انگار کیا
دشمن کی پہچان کہاں پھر اس کا دھیان کہاں
اندھوں کو سالار کیا، بے دیکھے وار کیا
جانے کیسے دیس گئے، تم کیوں پردیس گئے
کیا میرے دلدار کیا، ساون بے کار کیا
دھیرے دھیرے رات چلی، دکھ کی بارات چلی
آہوں کو جھنکار کیا، دل بجتا تار کیا
ہمراہی سب جانتے ہیں دکھ موسم، سکھ موسم
سب پر یکساں بار کیا، رستا ہموار کیا
دل کے بدلے دل مانگا اور پیار کے بدلے پیار
تم سمجھے ہو پیار کیا، یہ تو بیوپار کیا
نیرؔ جگ کی باتوں سے، خود اپنے ہاتھوں سے
ہر رستا دیوار کیا، جینا دشوار کیا

شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment