یہ جو چہروں پہ لئے گردِ الم آتے ہیں
یہ تمہارے ہی پشیمانِ کرم آتے ہیں
اِتنا کُھل کر بھی نہ رو، جسم کی بستی کو بچا
بارشیں کم ہوں تو سیلاب بھی کم آتے ہیں
تُو سُنا، تیری مسافت کی کہانی کیا ہے
میرے رَستے میں تو ہر گام پہ خم آتے ہیں
خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کو
گاؤں کے لوگ ہیں ہم، شہر میں کم آتے ہیں
وہ تو بیدلؔ کوئی سُوکھا ہوا پتا ہو گا
تیرے آنگن میں کہاں اُن کے قدم آتے ہیں
بیدل حیدری
یہ تمہارے ہی پشیمانِ کرم آتے ہیں
اِتنا کُھل کر بھی نہ رو، جسم کی بستی کو بچا
بارشیں کم ہوں تو سیلاب بھی کم آتے ہیں
تُو سُنا، تیری مسافت کی کہانی کیا ہے
میرے رَستے میں تو ہر گام پہ خم آتے ہیں
خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کو
گاؤں کے لوگ ہیں ہم، شہر میں کم آتے ہیں
وہ تو بیدلؔ کوئی سُوکھا ہوا پتا ہو گا
تیرے آنگن میں کہاں اُن کے قدم آتے ہیں
بیدل حیدری
No comments:
Post a Comment