Wednesday 26 February 2014

اے شریکِ زندگی! اِس بات پر روتی ہے تُو

اے شریکِ زندگی! اِس بات پر روتی ہے تُو
کیوں مِرا ذوقِ ادب ہے مائلِ جام و سبُو
کس لیے اس پر نہیں روتی کہ اہلِ خانقاہ
داڑھیوں سے ہندیوں کو کر رہے ہیں رُوسیاہ
کس لیے اس پر نہیں روتی کہ مصنُوعی صلوٰۃ
خم کیے دیتی ہے اپنے وزن سے پشتِ حیات
کس لیے اس پر نہیں روتی کہ دُشمن کا عتاب
تیری ہم جنسوں کی راہوں میں اُلٹتا ہے نقاب
کس لیے اس پر نہیں روتی کہ ہے گرمِ فُغاں
سبحہ و زنّار میں جکڑا ہُوا ہندوستاں
کس لیے اس پر نہیں روتی کہ تیرے نونہال
بن رہے ہیں مغربی تہذیب سے رنگیں جمال
کس لیے اس پر نہیں روتی کہ تھے جو شہسوار
آج اُن لڑکوں میں ہے لیلیٰ و سلمیٰ کا نکھار
کس لیے اس پر نہیں روتی کہ ہندی نوجواں
کھو چکا ہے صف شکن اسلاف کی رُوحِ تپاں
کس لیے اس پر نہیں روتی کہ شمشیرِ وطن
بن چکی ہے بزمِ محکومی کی شمعِ انجمن
کس لیے اس پر نہیں روتی کہ مِلّت کا شباب
شیب کی ناوقت یورش سے ہے جویائے خضاب
کس لیے اس پر نہیں روتی کہ بیٹے کی جبیں
باپ کے ماتھے کی سی تابندگی رکھتی نہیں
چھوڑ کر چہرے کے دھبے آئینہ دھوتی ہے تُو
میری درویشانہ مے خواری پہ کیا روتی ہے تُو

جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment