Monday 17 December 2018

کھولو تو سہی زلف ذرا شام سے پہلے

کھولو تو سہی زلف ذرا شام سے پہلے

چھا جائے گی گھنگھور گھٹا شام سے پہلے

لٹ جانا بڑی بات نہیں شہر میں تیرے 

حد یہ ہے کہ ہر شخص لٹا شام سے پہلے

اک شب کے لیے اس نے کیا وصل کا اقرار

حیرت ہے کہ پھر بھول گیا شام سے پہلے

صبح گلرنگ کوئی شام سہانی لا دے

صبحِ گل رنگ کوئی شام سہانی لا دے

کوئی تو وصل کے موسم کی نشانی لا دے

اتنا بے مول نہیں ہوں کہ سہارا مانگوں

ہو جو ممکن تو مجھے میری جوانی لا دے

کتنی پژمردہ ہیں اس شہر میں دل کی فصلیں 

بارشیں پیار کی لا، درد کا پانی لا دے

کیا ترے ملنے کا امکان بھی پورا ہو گا

 کیا تِرے ملنے کا امکان بھی پورا ہو گا 

جو مِرے دل میں ہے ارمان بھی پورا ہو گا

جو تِرے عہدِ ستمگر میں ہوا ہے اب تک 

ہم فقیروں کا وہ نقصان بھی پورا ہو گا 

سجدۂ شوق بجا لانے کی توفیق تو دے

پھر تِری سمت مِرا دھیان بھی پورا ہو گا

کیا خریدو گے جو اس شہر میں ہم بیچتے ہیں

 کیا خریدو گے جو اس شہر میں ہم بیچتے ہیں 

ہم غریبانِ وطن، رنج و الم بیچتے ہیں

زہر لگتے ہیں مجھے ایسے لکھاری جو یہاں

چند سکوں کے عوض اپنا قلم بیچتے ہیں

ایسے کچھ لوگ تِری دنیا میں ہیں، ربِ جہاں 

اپنا ایمان و یقیں، دِین و دَھرم بیچتے ہیں

Tuesday 27 November 2018

تم نے جو درد کیے میرے حوالے گن لو

اس سے پہلے کہ کوئی ان کو چرا لے، گِن لو 
تم نے جو درد کیے میرے حوالے، گن لو
چل کے آیا ہوں، اٹھا کر نہیں لایا گیا میں 
کوئی شک ہے تو مرے پاؤں کے چھالے گن لو
جب میں آیا تو اکیلا تھا، گنا تھا تم نے
آج ہر سمت مِرے چاہنے والے گن لو

تمہارے جسم میں شہد اور نمک برابر ہے

خدا نے تول کے گوندھے ہیں ذائقے تم میں
تمہارے جسم میں شہد اور نمک برابر ہے
وہ حسن تم کو زیادہ دیا ہے فطرت نے
جو حسن پھول سے مہتاب تک برابر ہے
ہر ایک صحن میں تو چاندنی چھٹکتی نہیں
جمالِ یار پہ کب سب کا حق برابر ہے

تمام ان کہی باتوں کا ترجمہ کر کے

تمام ان کہی باتوں کا ترجمہ کر کے 
کوئی بتائے ان آنکھوں کا ترجمہ کر کے
سناؤں گا نہیں لیکن کہا تو ہے اک شعر 
تمہاری ساری اداؤں کا ترجمہ کر کے
میں کافی باتیں پسِ گفتگو بھی کرتا ہوں 
مجھے سنو مِری سوچوں کا ترجمہ کر کے

Tuesday 13 November 2018

اک دعا نے بچا لیا ہے ہمیں

اک دعا نے بچا لیا ہے ہمیں
ورنہ کس کس کی بد دعا ہے ہمیں
اس کی رسوائیوں کا ڈر بھی ہے
اور کہنا بھی برملا ہے ہمیں 
وصل کی آرزو بھی ہے دل میں
ہجر کا دکھ بھی جھیلنا ہے ہمیں

یاد کرنے پہ نہ یاد آئیں زمانے ہو جائیں

یاد کرنے پہ نہ یاد آئیں زمانے ہو جائیں
وہ نئے حرف نہ لکھو جو پرانے ہو جائیں
ہم سخاوت ہی پہ آمادہ نہیں ہیں، ورنہ
دل ہمارے بھی محبت کے خزانے ہو جائیں
کون پرچھائیوں کے عکس کو پہچانے گا
گھر اگر گھر نہ رہیں، آئینہ خانے ہو جائیں

بنام دل فگاراں کج ادا آتی رہے گی

بنامِ دل فگاراں کج ادا آتی رہے گی
دریچے کھول کر رکھنا ہوا آتی رہے گی
کوئی موسم بھی ہو امید کا دامن نہ چھوٹے
خبر آئے نہ آئے، پر صبا آتی رہے گی
کہاں تک تم نظر انداز کر پاؤ گے مجھ کو
جہاں بھی جاؤ گے میری صدا آتی رہے گی

اب اس کے بعد کوئی رہگزر عزیز نہیں

اب اس کے بعد کوئی رہگزر عزیز نہیں
سفر عزیز ہے، اور ہمسفر عزیز نہیں
میں ناتواں صحیح لیکن مجھے پکار کے دیکھ
تیری طلب سے زیادہ تو سر عزیز نہیں
چراغ ہے نہ کوئی انتظار ہے، ورنہ
تمہی کہو کہ کسے بام و در عزیز نہیں

Saturday 10 November 2018

دکھ؛ قصرِ سفید میں بیٹھا خون آشام درندہ

دکھ

قصرِ سفید میں بیٹھا خون آشام درندہ
کس انجیل کا پیرو ہے؟
دین کے نام پہ دہشت نافذ کرنے والے
کس قرآن کے طالب ہیں؟
روشن روشن چہروں والے
مہکی مہکی زلفوں والے

مجھے عشق فقیر بلاتا ہے

مجھے عشق فقیر بلاتا ہے

اک دید مجھے اکساتی ہے
کوئی آیت یاد دلاتی ہے
اک مصحف سامنے آتا ہے
مجھے عشق فقیر بلاتا ہے

آ حیرت کو حیران کریں
اس بھید بھری خلوت اندر

Monday 5 November 2018

خط ہجراں آج سے نوحہ گری ہو گی

خطِ ہجراں

آج سے ضبط کے صحرا کی طرف چلنا ہے 
آج سے قرض اٹھانے ہیں تِرے غم کے بس
آج سے بجھتے چراغوں سے سخن کرنے ہیں
آج سے یاد کے موسم کی ہوا چلنی ہے
آج سے بوجھ تمناؤں کے اٹھائے پھروں گی 
آج سے اشک فشانی پہ جوانی ہو گی

جس کو دیکھو وہ خدا بنتا ہے

اپنے قامت سے بڑا بنتا ہے
جس کو دیکھو وہ خدا بنتا ہے
ہم تو جیسے بھی بنے بن گئے ہیں
دیکھیے آپ کا کیا بنتا ہے
وہ مِرا تیرے سوا بنتا نہیں 
جو مِرا تیرے سوا بنتا ہے

Sunday 4 November 2018

اے وائے بر حرف ہنر

اے وائے بر حرفِ ہنر

سورج سوا نیزے پہ اور نیزہ مرے سینے کے پار
اور ہر طرف زندہ لہو کی آگ میں جھلسے ہوئے، جلتے ہوئے لفظوں کے بیچ
"اک نسخۂ "مہر دونیم
اور اک بھیانک چیخ، پھر اک قہقہہ
پھر ایک آوازِ فغاں

اور ہوا چپ رہی

اور ہوا چپ رہی

شاخِ زیتون پر کم سخن فاختاؤں کے اتنے بسیرے اجاڑے گئے
اور ہوا چپ رہی
بے کراں آسمانوں کی پہنائیاں بے نشیمن شکستہ پروں کی تگ و تاز پر بین کرتی رہیں
اور ہوا چپ رہی
زرد پرچم اڑاتا ہوا لشکرِ بے اماں گُل زمینوں کو پامال کرتا رہا

احتجاج

احتجاج

اور سنا ہے
ایک چمگادڑ چنبیلی کے مہکتے کنج میں دم توڑتی
دیکھی گئی ہے
سنا ہے خوشبوؤں میں اس کا دَم گھٹنے لگا تھا
اور ننھے پھول سورج بن کے اس کی بے یقین

ایک رخ

ایک رخ

وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر
سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں
سارے خنجر ایک طرح کے ہوتے ہیں
گھوڑوں کی ٹاپوں میں روندی ہوئی روشنی
دریا سے مقتل تک پھیلی ہوئی روشنی

Saturday 3 November 2018

محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے

محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے
ترے شہر میں اک جہاں چھوڑ آئے
وہ سبزہ، وہ دریا، وہ پیڑوں کے سائے
وہ گیتوں بھری بستیاں چھوڑ آئے
پہاڑوں کی وہ مست شاداب وادی
جہاں ہم دلِ نغمہ خواں چھوڑ آئے

وہ کہہ رہے ہیں محبت نہیں وطن سے مجھے

وہ کہہ رہے ہیں محبت نہیں وطن سے مجھے
سکھا رہے ہیں محبت مشین گن سے مجھے
میں ’بے شعور ہوں‘ کہتا نہیں ستم کو کرم
یہی خطاب ملا ان کی انجمن سے مجھے
سِپر جو شہ کی بنے، غاصبوں کے کام آۓ
خدا بچاۓ رکھے ایسے علم و فن سے مجھے

حبیب جالب

ناموس کے جھوٹے رکھوالو تم وحشی ہو تم قاتل ہو

تم وحشی ہو تم قاتل ہو

ناموس کے جھوٹے رکھوالو
بے جرم ستم کرنے والو
کیا سیرت نبویﷺ جانتے ہو؟ 
کیا دین کو سمجھا ہے تم نے؟ 
کیا یاد بھی ہے پیغام نبیﷺ؟ 
کیا نبیﷺ کی بات بھی مانتے ہو؟ 

Friday 2 November 2018

یک دم کوئی دل دھڑکا

یکدم کوئی دل دھڑکا
شعلہ سا کہیں بھڑکا
جب تک کوئی سمجھے
لو پھوٹ بہے دھارے
آوازیں ملیں باہم
اور گونج اٹھے نعرے 

کوتوال بیٹھا ہے کیا بیان دیں اس کو

کوتوال بیٹھا ہے
کیا بیان دیں اس کو
جان جیسے تڑپی ہے
کچھ عیاں نہ ہو پائے
وہ گزر گئی دل پر جو بیاں نہ ہو پائے
ہاں لکھو کہ سب سچ ہے، سب درست الزامات

مری چنبیلی کی نرم خوشبو

مِری چنبیلی کی نرم خوشبو
ہوا کے دھارے پہ بہہ رہی ہے
ہوا کے ہاتھوں میں کھیلتی ہے
تِرا بدن ڈھونڈنے چلی ہے
مِری چنبیلی کی نرم خوشبو
مجھے تو زنجیر کر چکی ہے

Tuesday 30 October 2018

ریگ دیروز ہم محبت کے خرابوں کے مکیں

ریگِ دیروز

ہم محبت کے خرابوں کے مکیں 
وقت کے طول المناک کے پروردہ ہیں 
ایک تاریک ازل نور ابد سے خالی 
ہم جو صدیوں سے چلے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا 
اپنی تہذیب کی پاکوبی کا حاصل پایا 
ہم محبت کے نہاں خانوں میں بسنے والے 

زندگی اک پیرہ زن

زندگی اک پِیرہ زن

زندگی اک پیرہ زن
جمع کرتی ہے گلی کوچوں میں روز و شب پرانی دھجیاں
تیز، غم انگیز، دیوانہ ہنسی سے خندہ زن
بال بکھرے، دانت میلے، پیرھن
دھجیوں کا ایک سونا اور نا پیدا کراں، تاریک بن

بوئے آدم زاد

بوئے آدم زاد

بوئے آدم زاد آئی ہے کہاں سے ناگہاں؟
دیو اس جنگلے کے سناٹے میں ہیں
ہو گئے زنجیر پا خود ان کے قدموں کے نشاں
یہ وہی جنگل ہے جس کے مرغزاروں میں سدا
چاندنی راتوں میں وہ بے خوف و غم رقصاں رہے

کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم

کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟

لب بیاباں، بوسے بے جاں
کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
جسم کی یہ کارگاہیں
جن کا ہیزم آپ بن جاتے ہیں ہم
نیم شب اور شہر خواب آلودہ، ہم سائے

دھرم کی بانسری سے راگ نکلے

دھرم کی بانسری سے راگ نکلے
وہ سوراخوں سے کالے ناگ نکلے
رکھو دیر و حرم کو اب مقفّل
کئی پاگل یہاں سے بھاگ نکلے
وہ گنگا جل ہو یا آبِ زمزم
یہ وہ پانی ہیں جن سے آگ نکلے

خلوت جاں کی زندگی نذر سفر تو ہو گئی

خلوتِ جاں کی زندگی نذرِ سفر تو ہو گئی
یعنی ہماری آرزو خاک بسر تو ہو گئی
سوزِ فغانِ حال سے جل گئے لب مِرے مگر
اہلِ محلۂ فراق، تم کو خبر تو ہو گئی
ہے مِرا خواب پُر عذاب، سب کے ہیں خواب مہرتاب
میری سحر نہیں ہوئی، سب کی سحر تو ہو گئی

تعاقب

تعاقب

مجھ سے پہلے کے دن
اب بہت یاد آنے لگے ہیں تمہیں
خواب و تعمیر کے گم شدہ سلسلے
بار بار اب ستانے لگے ہیں تمہیں
دکھ جو پہنچے تھے تم سے کسی کو کبھی
دیر تک اب جگانے لگے ہیں تمہیں

یہ لوگ پاگل نہیں ہوئے ہیں

پہلی آواز
ہمارے سرکار کہہ رہے تھے یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں
کہ فرقِ افلاس و زر مٹا کر نظامِ فطرت سے لڑ رہے ہیں
نظامِ دولت خدا کی نعمت، خدا کی نعمت سے لڑ رہے ہیں
ہر اک روایت سے لڑ رہے ہیں، ہر اک صداقت سے لڑ رہے ہیں
مشیتِ حق سے ہو کےغافل خود اپنی قسمت سےلڑ رہےہیں
یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں؟

زمانے بھر کو اداس کر کے

زمانے بھر کو اداس کر کے 
خوشی کا ستیا ناس کر کے 
میرے رقیبوں کو خاص کر کے 
بہت ہی دوری سے پاس کر کے 
تمہیں یہ لگتا تھا 
جانے دیں گے؟ 

Monday 29 October 2018

نکل تو آؤں سوالوں کی بھیڑ سے لیکن

نظم

نکل تو آؤں سوالوں کی بھیڑ سے لیکن
سوال یہ ہے کہ کس کس سوال سے نکلوں
ابھی تک نیند میں رہ رہ کے بچے چیختے ہیں
جو اس بستی پہ گزری آپ نے دیکھا نہیں کیا
آگ کس ہاتھ میں ہے کون دیتا ہے ہوا
کس کا کیا کھیل یہاں بستیاں جانتی ہیں

دیکھیں قریب سے بھی تو اچھا دکھائی دے

دیکھیں قریب سے بھی تو اچھا دکھائی دے
اک آدمی تو شہر میں ایسا دکھائی دے
اب بھیک مانگنے کے طریقے بدل گئے
لازم نہیں کہ ہاتھ میں کاسہ دکھائی دے
نیزے پہ رکھ کہ اور میرا سر بلند کر
دنیا کو اک چراغ تو جلتا دکھائی دے

Tuesday 16 October 2018

عشق کی جوت جگانے میں بڑی دیر لگی

عشق کی جوت جگانے میں بڑی دیر لگی 
سائے سے دھوپ بنانے میں بڑی دیر لگی 
میں ہوں اس شہر میں تاخیر سے آیا ہوا شخص
مجھ کو اک اور زمانے میں بڑی دیر لگی
یہ جو مجھ پہ کسی اپنے کا گماں ہوتا ہے
مجھ کو ایسا نظر آنے میں بڑی دیر لگی 

اب ادھورے عشق کی تکمیل ہی ممکن نہیں

اب ادھورے عشق کی تکمیل ہی ممکن نہیں 
کیا کریں پیغام کی ترسیل ہی ممکن نہیں
کیا اسے سمجھاؤں کاغذ پر لکیریں کھینچ کر 
جذبۂ بے نام کی تشکیل ہی ممکن نہیں
کس جگہ انگلی رکھوں کس حرف کو کیسے پڑھوں 
آیتِ امکاں! تِری ترتیل ہی ممکن نہیں

خمیدہ سر نہیں ہوتا میں خودداری کے موسم میں

خمیدہ سر نہیں ہوتا میں خودداری کے موسم میں
مِرا اک اپنا موسم ہے گراں باری کے موسم میں
میں ان گِرہوں میں پانی باندھ کر لایا تھا دریا سے
مِرے چہرے پہ آنکھیں تھیں، عزاداری کے موسم میں
ہمارے کھِلنے اور جھڑنے کے دن اِک ساتھ آئے تھے
ہمیں دیمک نے چاٹا ہے، شجر کاری کے موسم میں

میرے اعصاب معطل نہیں ہونے دیں گے

میرے اعصاب معطل نہیں ہونے دیں گے
یہ پرندے مجھے پاگل نہیں ہونے دیں گے
تُو خدا ہونے کی کوشش تو کرے گا، لیکن
ہم تجھے آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیں گے
یار اک بار پرندوں کو حکومت دے دو
یہ کسی شہر کو مقتل نہیں ہونے دیں گے

Friday 12 October 2018

ابھی لنگر نہیں ڈالا

ابھی لنگر نہیں ڈالا

تکونی بادباں کی رسیاں ڈھیلی نہیں کیں 
ابھی مستول اپنے پاؤں کے اوپر کھڑا ہے
سفینے کے بھرے سینے میں سانسوں کا ذخیرہ سرسراتا ہے
ابھی ہم ناقدانہ فاصلے سے اجنبی ساحل کے تیور دیکھتے ہیں
کھجوروں کے درختوں میں چھپی سرگوشیاں سننے کی خاطر 

نونہال سوال کرتا ہے

نونہال سوال کرتا ہے

میں سمجھتا تھا اسکول کے ہر طرف ایک دیوار ہے
میرے گھر کی طرح
اپنے مکتب میں آ کر مجھے ایسا لگتا
کہ گھر سے چلے اور گھر آ گئے
کیا خبر تھی گزشتہ کئی سال سے، اس کے چاروں طرف

علاج بالمثل

علاج بالمثل

دوا بالمثل بے توقیر روگوں، بے حمیت عارضوں کے واسطے 
بے مثل ہوتی ہے
کئی عشرے ہوئے ہم جاں بلب ہیں
اور مسلسل اس دوا پر ہیں
ہمیں دیکھو 

خانہ بدوش

خانہ بدوش 

نا مُشت میں میری مُشتری، نا پاؤں میں نیلوفر
نا زُہرہ میری جیب میں، نا ہُما اڑے اوپر
نا دھڑکا ہے سرطان کا، نا زُحل کا کوئی ڈر
نا کوئی میرا دیس ہے نا کوئی میرا گھر
نا ماتھے چمکے چندرما، نا تارا چھنگلی پر
پر دیکھ گلوب ہے گھومتا، میری میلی انگلی پر

Tuesday 9 October 2018

یوں دل سے کسی درد کا پیماں نہیں کرتے

یوں دل سے کسی درد کا پیماں نہیں کرتے
اب جاں پہ بنی بھی ہے تو درماں نہیں کرتے
ہر یاد کو یوں زخم بناتے نہیں دل کا
ہر تیر کو پیوستِ رگِ جاں نہیں کرتے
یہ مسٔلہ اب اہلِ محبت کا ہے اپنا
مرتے ہیں تو کچھ آپ پہ احساں نہیں کرتے

نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے

نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے 
مگر یہ بات بڑی دور جا نکلتی ہے 
ستم تو یہ ہے کہ عہدِ ستم کے جاتے ہی 
تمام خلق مِری ہم نوا نکلتی ہے 
وصال و ہجر کی حسرت میں جوئے کم مایہ 
کبھی کبھی کسی صحرا میں جا نکلتی ہے 

کشیدہ سر سے توقع عبث جھکاؤ کی تھی

کشیدہ سر سے توقع عبث جھکاؤ کی تھی 
بگڑ گیا ہوں کہ صورت یہی بناؤ کی تھی 
وہ جس گھمنڈ سے بچھڑا گِلہ تو اس کا ہے 
کہ ساری بات محبت میں رکھ رکھاؤ کی تھی 
وہ مجھ سے پیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا 
کہ دشمنی میں بھی شدت اسی لگاؤ کی تھی 

تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست

تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست 
تُو مری پہلی محبت تھی مِری آخری دوست 
لوگ ہر بات کا افسانہ بنا دیتے ہیں 
یہ تو دنیا ہے مِری جاں! کئی دشمن کئی دوست 
تیرے قامت سے بھی لپٹی ہے امر بیل کوئی 
میری چاہت کو بھی دنیا کی نظر کھا گئی دوست 

Wednesday 22 August 2018

سکوں ملے نہ ملے یا قرار ہو کے نہ ہو

سکوں ملے نہ ملے یا قرار ہو کے نہ ہو
چمن کی خیر الہٰی! 🎕بہار ہو کے نہ ہو🎕
ہم اس کے یار ہیں، وہ اپنا یار ہو کے نہ ہو
ہمیں تو اس سے پیار ہے، اس کو پیار ہو کے نہ ہو
اٹی ہوئی ہیں تلون کی دھول سے نظریں
کھنچے کھنچے تو ہو، دل میں غبار ہو کے نہ ہو

یہ بات دل سے کہوں گا فقط زباں سے نہیں

یہ بات دل سے کہوں گا فقط زباں سے نہیں
کوئی ملال مجھے جورِ دوستاں سے نہیں
قفس نصیب کو اب ربط گلستاں سے نہیں
زمینِ گل سے نہیں شاخِ آشیاں سے نہیں
ملال ہے تو عدو کی شکاہتوں کا انہیں
وہ غمزدہ ہیں مگر مری داستاں سے نہیں

لڑاتے ہیں نظر ان سے جو ہوتے ہیں نظر والے

لڑاتے ہیں نظر ان سے جو ہوتے ہیں نظر والے
محبت کرتے ہیں دنیا میں دل والے، جگر والے
ہمیں ذوقِ نظر نے کر دیا اس راز سے واقف
اشاروں میں پرکھتے ہیں زمانے کو نظر والے
کوئی تم سا نہ دیکھا، یوں تو دیکھا ہم نے دنیا میں 
بہت جادو نظر والے، بہت جادو اثر والے

آ گئیں چل کے ہوائیں تیرے دیوانے تک

آ گئیں چل کے ہوائیں تیرے دیوانے تک
اب یہی لے کے چلیں گی اسے مےخانے تک
کوئی چھیڑے نہ مجھے عہد بہار آنے تک
میں پہنچ جاؤں گا خود جھوم کے مےخانے تک
آکے خود رقص کیا کرتا ہے جل جانے تک
شمعِ سوزاں کبھی جاتی نہیں پروانے تک

Monday 23 July 2018

ہر اک ہزار میں بس پانچ سات ہیں ہم لوگ

ہر اک ہزار میں بس پانچ، سات ہیں ہم لوگ
نصابِ عشق پہ واجب زکوٰۃ ہیں ہم لوگ
دباؤ میں بھی جماعت کبھی نہیں بدلی
شروع دن سے محبت کے ساتھ ہیں ہم لوگ
جو سیکھنی ہو زبانِ سکوت، بسم اللہ
خموشیوں کی مکمل لغات ہیں ہم لوگ

بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے

بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے
بچا ہے جو تجھ میں میرا حصہ نکالنا ہے
یہ بیس برسوں سے کچھ برس پیچھے چل رہی ہے
مجھے گھڑی کا خراب پرزہ نکالنا ہے
نظر میں رکھنا کہیں کوئی غم شناس گاہک
مجھے سخن بیچنا ہے، خرچہ نکالنا ہے

Monday 16 July 2018

نیا حکم نامہ

نیا حکم نامہ

کسی کا حکم ہے
ساری ہوائیں
ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے؟
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہو گا

پرستار

پرستار

وہ جو کہلاتا تھا دیوانہ ترا 
وہ جسے حفظ تھا افسانہ ترا 
جس کی دیواروں پہ آویزاں تھیں 
تصویریں تری 
وہ جو دہراتا تھا 
تقریریں تری 

اعتراف

اعتراف 

سچ تو یہ ہے کہ قصور ہمارا ہے
چاند کو چھونے کی تمنا کی
آسمان کو زمین پر مانگا
پھول چاہا کہ پتھروں پہ کھلے
کانٹوں میں کی تلاش خوشبو کی
آگ سے مانگتے رہے ٹھنڈک

تاریخ کے چند دور

تاریخ کے چند دور 

راہوں میں پتھر
جلسوں میں پتھر
سینوں میں پتھر
عقلوں پہ پتھر
آستانوں پہ پتھر

پچھلے پہر کے سناٹے میں

پچھلے پہر کے سناٹے میں 

پچھلے پہر کے سناٹے میں 
کس کی سِسکی کس کا نالہ 
کمرے کی خاموش فضا میں در آیا ہے 
زور ہوا کا ٹوٹ چکا ہے 
کھلے دریچے کی جالی سے 

Saturday 14 July 2018

گزر گئی حد سے پائمالی عتاب ترک کلام کب تک​

گزر گئی حد سے پائمالی، عتابِ ترکِ کلام کب تک​
رہے گی مسدود اے سِتمگر! رہِ پیام و سلام کب تک​
بہت ستاتی ہے اس کی دوری، تلافئ غم بھی ہے ضروری​
ہو جلد صبحِ وصال یا رب، رہے گی فُرقت کی شام کب تک​
قفس میں صیاد بند کر دے، نہیں تو بے رحم چھوڑ ہی دے​
میانِ امید و بیم آخر، رہیں گے ہم زیرِ دام کب تک​

Tuesday 10 July 2018

تیز قدموں کی آہٹوں سے بھری

بھکارن

تیز قدموں کی آہٹوں سے بھری
رہگزر کے دو رویہ سبزہ و کشت
چار سُو ہنستی رنگتوں کے بہشت

صد خیابانِ گُل، کہ جن کی طرف
دیکھتا ہی نہیں کوئی راہی
سرخ پھولوں سے اک لدی ٹہنی

بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار

توسیعِ شہر

بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر، بانکے پہرے دار
گھنے، سہانے، چھاؤں چھڑکتے، بُور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بِک گئے سارے ہرے بھرے اشجار

جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چِیر گئے ان ساونتوں کے جسم

زندگی اے زندگی

زندگی، اے زندگی

خرقہ پوش و پا بہ گل
میں کھڑا ہوں، تیرے در پر، زندگی
ملتجی و مضمحل
خرقہ پوش و پا بہ گل
اے جہانِ خار و خس کی روشنی
زندگی، اے زندگی

سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر

درسِ ایام 

سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
تخت و کلاہ و قصر کے سب سلسلے گئے
وہ دست و پا میں گڑتی سلاخوں کے روبرو
صدہا تبسموں سے لدے طاقچے گئے
آنکھوں کو چھیدتے ہوۓ نیزوں کے سامنے
محراب زر سے اٹھتے ہوۓ قہقہے گئے

Tuesday 3 July 2018

خاکم بدہن میں عازم میخانہ تھی کل رات کو دیکھا

خاکم بدہن

میں عازمِ مے خانہ تھی کل رات کو دیکھا
اک کوچۂ پر شور میں اصحابِ طریقت
تھے دست و گریباں
خاکم بدہن پیچ عماموں کے کھلے تھے
فتووں کی وہ بوچھاڑ کہ طبقات تھے لرزاں
دستانِ مبارک میں تھیں ریشانِ مبارک

جن پر میرا دل دھڑکا تھا

جن پر میرا دل دھڑکا تھا
وہ سب باتیں دہراتے ہو
وہ جانے کیسی لڑکی ہے 
تم اب جس کے گھر جاتے ہو
مجھ سے کہتے تھے
بن کاجل اچھی لگتی ہیں میری آنکھیں 

یہ زرد موسم کے خشک پتے

زرد موسم

یہ زرد موسم کے خشک پتے
ہوا جنہیں لے گئی اڑا کر
اگر کبھی تم یہ دیکھ پاؤ
تو سوچ لینا
کہ ان میں ہر برگ کی نمو میں
زیاں گیا عرق شاخِ گل کا

ایوان عدالت میں

ایوان عدالت میں

نذیر عباسی کی شہادت پر کہی گئی ایک نظم

پتھرائی ہوئی آنکھیں
پتھراۓ ہوۓ چہرے
پتھرائی ہوئی سانسیس
چمڑے کی زبانوں پر 
پتھرائی ہوئی باتیں

Saturday 30 June 2018

آؤ پھر نظم کہیں

آؤ پھر نظم کہیں
پھر کسی درد کو سہلا کے سُجا لیں آنکھیں
پھر کسی دُکھتی ہوئی رگ سے چُھوا دیں نشتر
یا کسی بھولی ہوئی راہ پہ مُڑ کر اک بار
نام لے کر کسی ہمنام کو آواز ہی دیں
پھر کوئی نظم کہیں

گلزار

دور سنسان سے ساحل کے قریب

لینڈ سکیپ

دور سنسان سے ساحل کے قریب
ایک جواں پیڑ کے پاس
عمر کے درد لئے، وقت کی مٹیالی نشانی اوڑھے
بوڑھا سا پام کا ایک پیڑ، کھڑا ہے کب سے
سینکڑوں سال کی تنہائی کے بعد

چھڑی رے چھڑی کیسی گلے میں پڑی

فلمی گیت

چھڑی رے چھڑی کیسی گلے میں پڑی
پیروں کی بیڑی، کبھی لگے ہتھکڑی
سیدھے سیدھے راستوں کوتھوڑا سا موڑ دے دو
بے جوڑ روحوں کو ہلکا سا جوڑ دے دو
جوڑ دو نہ ٹوٹ جاۓ سانسوں کی لڑی
چھڑی رے چھڑی کیسی گلے میں پڑی

Saturday 23 June 2018

فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں

فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں 
جہاں بجتے ہیں نقّارے وہیں ماتم بھی ہوتے ہیں
گِلے شکوے کہاں تک ہوں گے آدھی رات تو گزری 
پریشاں تم بھی ہوتے ہو، پریشاں ہم بھی ہوتے ہیں
وہ آنکھیں سامری فن ہیں، وہ لب عیسیٰ نفس دیکھو 
مجھی پر سحر ہوتے ہیں مجھی پر دم بھی ہوتے ہیں

Friday 22 June 2018

شہر سے ہوتی ہوئی گاؤں تلک جاتی ہے

شہر سے ہوتی ہوئی گاؤں تلک جاتی ہے
سبز پیڑوں کی طرف ایک سڑک جاتی ہے
یک بہ یک یاد کوئی شخص مجھے آتا ہے
یک بہ یک آنکھ مِری یونہی چھلک جاتی ہے
جب تِرے وصل کی امید پکارے مجھ کو
دور تک ہجر کے کنگن کی کھنک جاتی ہے

Thursday 21 June 2018

موج در موج مچلتا ہوا پانی رکھتا

موج در موج مچلتا ہوا پانی رکھتا
تُو کہ دریا تھا سو دریا سی روانی رکھتا
تیرا کردار مثالی ہی نہیں تھا، ورنہ
ہر کہانی سے الگ اپنی کہانی رکھتا
نئے لوگوں، نئی دنیا سے شناسا ہو کر
کیسے کمرے میں وہ تصویر پرانی رکھتا

یہ رنج رائگانی ہی بہت ہے

یہ رنجٍ رائیگانی ہی بہت ہے
محبت کی نشانی ہی بہت ہے
تِرے صحرا کی جتنی پیاس بھی ہو
مِری آنکھوں کا پانی ہی بہت ہے
تمہیں برباد کرنے کو تمہارا 
خمارٍ حکمرانی ہی بہت ہے

میں اکیلا ہوں یہاں کوئی نہیں میرے ساتھ

میں اکیلا ہوں یہاں کوئی نہیں میرے ساتھ
کر گئے ہاتھ سبھی دشت نشیں میرے ساتھ
آسماں! دیکھ رفاقت تو اسے کہتے ہیں
بوجھ اٹھا کر مِرا چلتی ہے زميں میرے ساتھ
یہ بھی تو وقت کی جانب سے ہے دلجوئی مِری
ایک سے بڑھ کے رہا ایک یقيں میرے ساتھ

یاد خوش رنگ سے کچھ ایسے اجالی میں نے

یادِ خوشرنگ سے کچھ ایسے اجالی میں نے
ہجر کی شام بنا لی ہے وصالی میں نے
رختِ پرواز کی آسودگی اوروں کو مِلی
عمر بھر جھیلی مگر بے پر و بالی میں نے
رنگ جتنے تھے، چُرا لے گئی دنیا تیرے
جتنی خوشبو تھی مِری جان! سنبھالی میں نے

Wednesday 20 June 2018

تو ہی کہتا تھا کہ ہوتی ہے ہوا پانی میں

تُو ہی کہتا تھا کہ ہوتی ہے ہوا پانی میں
بس تِری مان کے میں کود پڑا پانی میں
یوں ہوۓ تھے مِرے اوسان خطا پانی میں
سانس لینا بھی مجھے بھول گیا پانی
اس قدر شور کی عادی نہ تھی آبی دنیا
جس قدر زور سے میں جا کے گرا پانی میں

شیشے کا برگد

شیشے کا برگد

مرے آنگن کے برگد میں
کسی نے کانچ کا پیوند ڈالا ہے
جبھی تو
کرچیاں اگتی ہیں شاخوں پر
شجر کے ان بلوری مرتبانوں میں

Sunday 10 June 2018

سارے رشتے محترم ہوتے ہیں لیکن ماں سے کم

سارے رشتے محترم
ہوتے ہیں، لیکن ماں سے کم
ماں سے بڑھ
کر کون 
ہوتا ہے شریکِ رنج و غم؟

اعتبار ساجد

مرے بچے مجھ سے پوچھتے ہیں

مرے بچے مجھ سے پوچھتے ہیں
کیوں اتنا لکھتے ہیں پاپا؟
اتنی تو کتابیں لکھ ڈالیں
اتنی تو شہرت حاصل کی
اتنی تو عزت حاصل کی
اب اور بھلا کیا چاہتے ہیں؟

تم آج بہت رنحیدہ ہو

تم آج بہت رنحیدہ ہو
کیوں آئی کٹہرے میں بیٹی
جو شہزادی کہلاتی ہے
تاریخ کی لیکن عادت ہے
یہ اپنی کتھا دہراتی ہے
تمہیں وہ عورت یاد آتی ہے؟

الیکشن آنے والے ہیں

الیکشن آنے والے ہیں

سمجھ میں کچھ نہیں آتا
ہم اپنا ووٹ کس کو دیں؟
کوئی قاتل، کوئی رہزن
کوئی ڈیزل، کوئی انجن
کہیں ہیں نان قیمے کے
کہیں انبار سکے کے

Tuesday 22 May 2018

نہ حرف شوق نہ طرز بیاں سے آتی ہے

نہ حرفِ شوق نہ طرزِ بیاں سے آتی ہے 
سپردگی کی صدا جسم و جاں سے آتی ہے 
کوئی ستارہ رگ و پے میں ہے سمایا ہوا 
مجھے خود اپنی خبر آسماں سے آتی ہے 
کسی دکان سے ملتی نہیں ہے گرمیٔ شوق 
یہ آنچ وہ ہے جو سوزِ نہاں سے آتی ہے 

اپنی سچائی کا آزار جو پالے ہوئے ہیں

اپنی سچائی کا آزار جو پالے ہوئے ہیں 
خود کو ہم گردشِ آفات میں ڈالے ہوئے ہیں 
ہیں تو آباد، مگر در بدری کی زد پر 
وہ بھی میری ہی طرح گھر سے نکالے ہوئے ہیں 
اپنی رفتار سے آگے بھی نکل سکتا ہوں 
مجھ پہ کب حاوی مرے پاؤں کے چھالے ہوئے ہیں 

بظاہر یہ وہی ملنے بچھڑنے کی حکایت ہے

بہ ظاہر یہ وہی ملنے بچھڑنے کی حکایت ہے 
یہاں لیکن گھروں کے بھی اجڑنے کی حکایت ہے 
سپہ سالار کچھ لکھتا ہے تصویر ہزیمت میں 
مگر یہ تو عدو کے پاؤں پڑنے کی حکایت ہے 
کنیزِ بے نوا نے ایک شہزادے کو چاہا کیوں 
محبت زندہ دیواروں میں گڑنے کی حکایت ہے 

Monday 21 May 2018

اس خرابے میں کچھ آگے وہ جگہ آتی ہے

اس خرابے میں کچھ آگے وہ جگہ آتی ہے
کہ جہاں خواب بھی ٹوٹے تو صدا آتی ہے
میں نے زندان میں سیکھا تھا، اسیروں سے اک اِسم
جس کو دیوار پہ پھونکیں تو ہوا آتی ہے
خوب رونق تھی ان آنکھوں میں، پھر اک خواب آیا
ایسے، جیسے کسی بستی میں وبا آتی ہے

سمے نہ دیکھ ابھی گفتگو چلی ہی تو ہے

سمے نہ دیکھ، ابھی گفتگو چلی ہی تو ہے
میں روک دوں گا کسی وقت بھی، گھڑی ہی تو ہے
حسین ہوتی ہے مرضی کی موت، سامنے دیکھ
یہ آبشار بھی دریا کی خودکشی ہی تو ہے
بھٹکتا رہتا ہوں دن بھر اجاڑ کمروں میں
وسیع گھر میں تجرد بھی بے گھری ہی تو ہے

سنو محبت کے صاف منکر

سنو محبت کے صاف منکر
بجا کہا کہ کہیں نہیں ہوں
تمہارے دل کے کسی بھی گوشے میں یاد بن کر
نہیں ہوں اب میں
غبارِ ہجراں کے سلسلوں نے
وصال رُت کی تمام یادیں

Sunday 20 May 2018

نصف سے دیکھ ذرا کم نہ زیادہ آدھا

نصف سے دیکھ ذرا کم نہ زیادہ آدھا 
بانٹ لیتے ہیں محبت تجھے آدھا آدھا 
مہرباں عشق! مجھے کاٹ دیا جائے گا 
ہونے والا ہے مِرا دستِ کشادہ آدھا 
چوک میں دیکھنے والے تھے تماشہ اس کا 
جس کو غربت میں میسر تھا لبادہ آدھا 

وہ نمازوں میں دعاؤں کے وظیفوں جیسا

وہ نمازوں میں دعاؤں کے وظیفوں جیسا
میں رعایا کی طرح ہوں، وہ خلیفوں جیسا
اس کا ہر نقش ہے ازبر مجھے آیت کی طرح
اس کا ہر لمس میسر ہے صحیفوں جیسا
قہقہے کھوکھلے ہونٹوں پہ ہنسی مصنوعی
دکھ کے آزار میں ماحول لطیفوں جیسا

یہ دیا عشق کا درگاہ سے منسوب نہ کر

یہ دِیا عشق کا درگاہ سے منسوب نہ کر
ہر نیا ڈھونگ مِری چاہ سے منسوب نہ کر
لوگ اس رمز کی حالت سے کہاں واقف ہیں
اپنی ہر راہ مِری راہ سے منسوب نہ کر
قصہ گو! ساری کنیزیں نہیں ہوتیں مقتول
اس روایت کو شہنشاہ سے منسوب نہ کر

Thursday 17 May 2018

مجھے لڑتے ہوئے خود سے زمانے ہو گئے ہیں

مجھے لڑتے ہوئے خود سے زمانے ہو گئے ہیں
مِرے ہتھیار سب کے سب پرانے ہو گئے ہیں
تِرے لہجے میں کیوں اتنا تکبر آ گیا ہے 
تو کیا وافر بہت اس فصل دانے ہو گئے ہیں
وہ جن احساس باغوں شوق جگنو رقص میں تھے
کہیں کیا کن بلاؤں کے ٹھکانے ہو گئے ہیں

ہمیں خالی تماشوں میں مگن رکھا گیا ہے

ہمیں خالی تماشوں میں مگن رکھا گیا ہے
پسِ پردہ یہاں کچھ اور ہی ہوتا رہا ہے
تُلا بیٹھا ہے وہ سورج بجھانے پر تو سمجھو
چراغوں کے تصادم کا سمے سر پر کھڑا ہے
زمانوں سے روایت ہے یہی شہرِ وفا کی
کہ یہ ہر موسمِ گل میں کوئی سر مانگتا ہے

دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے

دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے 
کمرہ ویراں ہو جاتا ہے اک تصویر ہٹا دینے سے 
بے تابی کچھ اور بڑھا دی ایک جھلک دکھلا دینے سے 
پیاس بجھے کیسے صحرا کی دو بوندیں برسا دینے سے 
ہنستی آنکھیں لہو رلائیں کھلتے گل چہرے مرجھائیں 
کیا پائیں بے مہر ہوائیں دل دھاگے الجھا دینے سے 

یہ جو الفاظ کو مہکار بنایا ہوا ہے

یہ جو الفاظ کو مہکار بنایا ہوا ہے 
ایک گل کا یہ سب اسرار بنایا ہوا ہے
سوچ کو سوجھ کہاں ہے کہ جو کچھ کہہ پائے
دل نے کیا کیا پسِ دیوار بنایا ہوا ہے
پیر جاتے ہیں یہ دریائے شب و روز اکثر
باغ اک سیر کو اس پار بنایا ہوا ہے

Tuesday 15 May 2018

وہ قرب و ہجر کے سب روز و شب گزارے ہوئے

وہ قرب و ہجر کے سب روز و شب گزارے ہوئے
ہمارے شعر بنے یا سخن تمہارے ہوئے
قمار خانۂ شہرِ وفا میں حوصلہ رکھ
یہاں تو جشن مناتے ہیں لوگ ہارے ہوئے
حرم تو خیر مگر بت کدے ہیں کیوں ویراں
تو کیا خدا کو صنم آشنا بھی پیارے ہوئے

بے رخی تو نے بھی کی عذر زمانہ کر کے

بے رخی تُو نے بھی کی عذرِ زمانہ کر کے
ہم بھی محفل سے اٹھ آئے ہیں بہانہ کر کے
کتنی باتیں تھیں کہ نہ کہنا تھیں وہ کہہ بھیجی ہیں
اب پشیمان ہیں قاصد کو روانہ کر کے
جانتے ہیں وہ تنک خو ہے، سو اپنا احوال
ہم سنا دیتے ہیں، اوروں کا فسانہ کر کے

Sunday 13 May 2018

کچھ ضرورت سے کم کیا گیا ہے

کچھ ضرورت سے کم کیا گیا ہے
تیرے جانے کا غم کیا گیا ہے
تا قیامت ہرے بھرے رہیں گے
ان درختوں پہ دم کیا گیا ہے
اس لیے روشنی میں ٹھنڈک ہے
کچھ چراغوں کو نم کیا گیا ہے

اداس پھولوں کی پتیوں سے بنی ہوئی ہے

اداس پھولوں کی پتیوں سے بنی ہوئی ہے 
ہماری تقدیر کاغذوں سے بنی ہوئی ہے
سکون غارت کیا ہوا ہے تمام گھر کا 
کہ ان ہواؤں کی کھڑکیوں سے بنی ہوئی ہے
چہار سو چلچلاتے عکسوں کا سلسلہ ہے 
یہ آنکھ جانے کن آئینوں سے بنی ہوئی ہے

Saturday 12 May 2018

چلے جانے کی عجلت میں

چلے جانے کی عجلت میں
دلوں پر جو گزرتی ہے مسافر کب سمجھتے ہیں 
انہیں احساس کب ہوتا ہے
زادِ رہ سمیٹیں تو کسی کا دل سمٹتا ہے 
رگوں میں خون جمتا ہے
کسی کے الوداعی ہاتھ ہلتے ہیں مگر دل ڈوب جاتا ہے

دل بضد ہے کہ اسے چھو کے سراہا جائے

دل بضد ہے کہ اسے چھو کے سراہا جائے
آنکھ کہتی ہے اسے دور سے چاہا جائے
تُو یہاں بیٹھ مرے جسم، اسے مل آؤں
یہ نہ ہو تو بھی مِرے ساتھ گناہا جائے
کیا بعید ایسی کوئی شام زمیں پر اترے
جب دِیا ٹوٹی ہوئی شب سے بیاہا جائے

روز سنتا ہوں کہ بس آج یا کل نکلے گا

روز سنتا ہوں کہ بس آج یا کل نکلے گا 
کیا کبھی میرے مسائل کا بھی حل نکلے گا
ایسے حالات میں رسی کو جلاتے نہیں دوست
بس ذرا کھینچ کے رکھو گے تو بل نکلے گا
میں جو کہتا ہوں اسے غور سے سن کمرے سے 
حبس! دیوار پہ تصویر بدل، نکلے گا

برادری کے قبیلوں سے بات چل رہی ہے

برادری کے قبیلوں سے بات چل رہی ہے
سو دشمنی پہ دلیلوں سے بات چل رہی ہے
ابھی شکار کی بابت تو کچھ نہیں سوچا
ابھی تو جنگلی چیلوں سے بات چل رہی ہے
اسے ہے ترکِ رفاقت پہ مشورہ درکار
مِری بھی کتنے وکیلوں سے بات چل رہی ہے

Wednesday 9 May 2018

جس رات وہ خوابوں کو سجانے نہیں آتے

جس رات وہ خوابوں کو سجانے نہیں آتے
اس رات مِرے ہوش ٹھکانے نہیں آتے
وِڈیو میں جو دیکھا تو وہی وقت، وہی تُو
اب کیسے کہوں، گزرے زمانے نہیں آتے
دو چار منٹ ہیں تو بہت ہیں کہ مجھے بھی
کچھ شعر ہی آتے ہیں، فسانے نہیں آتے

سخن کروں گا میں تجھ سے یہ کائنات ہٹا

سخن کروں گا میں تجھ سے، یہ کائنات ہٹا
تُو میری بات کے رَستے سے اپنی بات ہٹا
میں اس کو دیکھ بھی سکتا تھا چھو بھی سکتا تھا
جب ایک موڑ پہ میرا حجابِ ذات ہٹا
ہزار رنگ کے منظر دکھائی دیں گے تجھے
بس آفتاب کے رستے سے ایک رات ہٹا

جیسے دیکھا ہے دکھایا بھی نہیں جا سکتا

جیسے دیکھا ہے، دکھایا بھی نہیں جا سکتا
خواب کا حال سنایا بھی نہیں جا سکتا
پھینکی جاتی بھی نہیں راہ میں یادیں اس کی
اور یہ بوجھ اٹھایا بھی نہیں جا سکتا
عکس کو آنکھ سے تھاما ہے سرِ آبِ رواں
چاند پانی میں بہایا بھی نہیں جا سکتا

جمال کم سخن سے ایسا کام کیسے ہو گیا

جمالِ کم سخن سے ایسا کام کیسے ہو گیا
میں خوگرِ کلام، بے کلام کیسے ہو گیا
محبتوں کے سلسلے تمہی پہ کیسے رک گئے
مسافروں کا اس گلی قیام کیسے ہو گیا
جو خوئے احتیاط پر تمہارا اختیار ہے
تو روئے بے نیاز لالہ فام کیسے ہو گیا

محل سے شاہ نے دیکھا ہی تھا جلال سمیت

محل سے شاہ نے دیکھا ہی تھا جلال سمیت
ہجوم سہم گیا اپنے اشتعال سمیت
یہ گورکن نے کہا لے کے آخری ہچکی
اتار دینا مجھے قبر میں کدال سمیت
برہنہ جسم کھڑی ہے ندی میں شہزادی
لباس لے گئے بندر اٹھا کے شال سمیت

چمن پہ جو بھی تھے نافذ اصول اس کے تھے

چمن پہ جو بھی تھے نافذ اصول اس کے تھے
تمام کانٹے ہمارے تھے، پھول اس کے تھے
جہاں بھی جاتا وہاں اس کی بادشاہی تھی
تمام سمتیں سبھی عرض و طول اس کے تھے
میں احتجاج بھی کرتا تو کس طرح کرتا
نگر میں فیصلے سب کو قبول اس کے تھے

کسی کے جبر کا دل میں خیال کیا کرتا

کسی کے جبر کا دل میں خیال کیا کرتا
تمام شہر تھا دشمن، بلال کیا کرتا
برس رہے تھے خلاؤں سے آتشیں نیزے
بدن پہ اوڑھ کے کاغذ کی ڈھال کیا کرتا
نگر کے سارے پرندے ہی پر شِکستہ تھے
میں نصب کر کے فضاؤں میں جال کیا کرتا

بک گئی دیوار تو پھر در کا سودا کر دیا

بِک گئی دیوار تو پھر دَر کا سودا کر دیا
رفتہ رفتہ اس نے سارے گھر کا سودا کر دیا
اپنے اپنے نام کی باہر لگا کر تختیاں
باغیوں نے شہر کے اندر کا سودا کر دیا
خیمۂ دشمن میں اپنی جاں بخشی کے لیے
اک سپہ سالار نے لشکر کا سودا کر دیا

کوئی جل میں خوش ہے کوئی جال میں

کوئی جل میں خوش ہے کوئی جال میں 
مست ہیں سب اپنے اپنے حال میں 
جادۂ شمشیر ہو یا فرشِ گل 
فرق کب آیا ہماری چال میں 
ایک آنسو سے کمی آ جائے گی 
غالباً دریاؤں کے اقبال میں 

اچھی گزر رہی ہے دل خود کفیل سے

اچھی گزر رہی ہے دلِ خود کفیل سے
لنگر سے روٹی لیتے ہیں، پانی سبیل سے
دنیا کا کوئی داغ مرے دل پہ کیا لگے
مانگا نہ اک درہم بھی کبھی اس بخیل سے
کیا بوریا نشیں کو ہوس تخت و تاج کی
کیا خاک آشنا کو غرض اسپ و فیل سے

کسی کا دھیان مہ نیم ماہ میں آیا

کسی کا دھیان مہِ نیم ماہ میں آیا 
سفر کی رات تھی اور خواب راہ میں آیا 
طلوعِ ساعتِ شبخوں ہے اور میرا دل 
کسی ستارۂ بد کی نگاہ میں آیا 
مہ و ستارہ سے دل کی طرف چلا وہ جواں 
عدو کی قید سے اپنی سپاہ میں آیا 

Monday 7 May 2018

کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ​

لہو کا سراغ​ 

کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ 
نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں 
نہ سرخئ لبِ خنجر نہ رنگِ نوکِ سِناں 
نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ 
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ 

تم اپنی کرنی کر گزرو

تم اپنی کرنی کر گزرو

اب کیوں اس دن کا ذکر کرو 
جب دل ٹکڑے ہو جائے گا 
اور سارے غم مٹ جائیں گے 
جو کچھ پایا کھو جائے گا 
جو مل نہ سکا وہ پائیں گے 

غم نہ کر غم نہ کر

غم نہ کر، غم نہ کر

درد تھم جائے گا غم نہ کر، غم نہ کر
یار لوٹ آئیں گے، دل ٹھہر جائے گا
غم نہ کر، غم نہ کر
زخم بھر جائے گا
غم نہ کر، غم نہ کر

حذر کرو مرے تن سے

حذر کرو مِرے تن سے

سجے تو کیسے سجے قتل عام کا میلہ 
کسے لبھائے گا میرے لہو کا واویلا 
مِرے نزار بدن میں لہو ہی کتنا ہے 
چراغ ہو کوئی روشن نہ کوئی جام بھرے 
نہ اس سے آگ ہی بھڑکے نہ اس سے پیاس بجھے 

Saturday 5 May 2018

نقص نکلیں گے ماہ کامل میں​

نقص نکلیں گے ماہِ کامل میں​
وہ اگر آ گئے مقابل میں​
فرطِ شوخی سے وہ نظر نہ پڑے​
آۓ بھی، اور نہ آئے محفل میں​
ہو جو ہمت تو سب کچھ آساں ہو​
دِقتیں ہیں جو کارِ مشکل میں​

وہ تغافل شعار میں بے تاب

اس کے نبھنے کے کچھ نہیں اسباب 
وہ تغافل شعار میں بے تاب 
واجب القتل ہے دلِ بے تاب 
کشتہ ہونا ہی خوب ہے سیماب 
ابر کی تیرگی میں ہم کو تو 
سوجھتا کچھ نہیں سوائے شراب 

ہم اپنا جو قصہ سنانے لگے

ہم اپنا جو قصہ سنانے لگے 
وہ بولے کہ پھر سر پھرانے لگے 
کہا تھا، اٹھا پردۂ شرم کو 
وہ الٹا ہمیں کو اٹھانے لگے 
ذرا دیکھیے ان کی صنّاعیاں 
مجھے دیکھ کر منہ بنانے لگے 

ذبح کر ڈالا مجھے رفتار سے

ذبح کر ڈالا مجھے رفتار سے
تیز تر چلتے ہیں وہ تلوار سے
گالیاں دے کر نکالا بزم سے
لو وظیفہ مل گیا سرکار سے
قیمتِ دل تو کہاں گر مفت دوں
تو بھی وہ لیتے ہیں سو تکرار سے

Friday 4 May 2018

میرے سنگ مزار پر فرہاد

میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد
ہم سے بِن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دلِ ناشاد
آنکھیں مُوند اور سفر عدم کا کر
بس بہت دیکھا عالمِ ایجاد

اب جو اک حسرت جوانی ہے

اب جو اک حسرتِ جوانی ہے 
عمرِ رفتہ کی یہ نشانی ہے 
رشکِ یوسف ہے آہ وقت عزیز 
عمر اک بار کاروانی ہے 
گریہ ہر وقت کا نہیں بے ہیچ 
دل میں کوئی غم نہانی ہے 

دل جو ناگاہ بے قرار ہوا

دل جو ناگاہ بے قرار ہُوا 
اس سے کیا جانوں کیا قرار ہوا 
شب کا پہنا جو دن تلک ہے مگر 
ہار اس کے گلے کا ہار ہوا 
گرد سر اس کے جو پھِرا میں بہت 
رفتہ رفتہ مجھے دوار ہوا 

گل کو محبوب ہم قیاس کیا

گُل کو محبوب ہم قیاس کِیا
فرق نکلا بہت جو باس کیا
دل نے ہم کو مثالِ آئینہ
ایک عالم کا روشناس کیا
کچھ نہیں سُوجھتا ہمیں اس بِن
شوق نے ہم کو بے حواس کیا

Thursday 3 May 2018

تاخیر آج دفتر میں دیر مجھ کو ہوئی

تاخیر

آج دفتر میں دیر مجھ کو ہوئی 
سر کھپایا ہے فائلوں میں بہت 
‏کیوں الجھتی ہو ناگہاں مجھ سے
میری جاں مجھ میں اب نہیں ہے سکت
پھر کبھی میری خامشی پر تم 
طیش کھانا، ملال کر لینا

Tuesday 1 May 2018

وہ وقت یقیناً آئے گا

یوم مئی کی مناسبت سے تنویر سپرا کی ایک نظم

وہ وقت یقیناً آۓ گا
وہ وقت یقیناً آۓ گا
وہ وقت یقیناً آۓ گا
جب دہقانوں کے کنبے خالی پیٹ نا مرنے پائیں گے
جب محنت کش کی محنت کا پھل اس کے بچے کھائیں گے

Friday 27 April 2018

ابھی مجھے تم جو آ کے دیکھو

Schrodinger's Cat

ابھی مجھے تم جو آ کے دیکھو
تو رمز افشا یہ ہو سکے گا
جو تیری یادوں کا زہرِ قاتل
مِری رگوں میں اتر چکا تھا 
نجانے اس کے اثر سے اس پَل
فنا سے واقف بھی ہو چکا ہوں

مرے جہان محبت پہ چھائے جاتے ہیں

مِرے جہانِ محبت پہ چھائے جاتے ہیں
بھلا رہا ہوں مگر یاد آئے جاتے ہیں
وہی ہیں عشق کے مارے، وہی ہیں دل والے
جو تیرے واسطے آنسو بہائے جاتے ہیں
جہانِ عشق میں اے سیر دیکھنے والے
طرح طرح کے تماشے دکھائے جاتے ہیں

میں جو مدہوش ہوا ہوں جو مجھے ہوش نہیں

میں جو مدہوش ہوا ہوں، جو مجھے ہوش نہیں
سب نے دی بانگِ محبت، کوئی خاموش نہیں
میں تِری مست نگاہی کا بھرم رکھ لوں گا
ہوش آیا بھی تو کہہ دوں گا مجھے ہوش نہیں
تُو نہیں ہے نہ سہی، کیف نہیں غم ہی سہی
یہ بھی کیا کم ہے کہ خالی مِرا آغوش نہیں

تجھ پر مری محبت قربان ہو نہ جائے

تجھ پر مِری محبت قربان ہو نہ جائے
یہ کفر بڑھتے بڑھتے ایمان ہو نہ جائے
اللہ ری بے نقابی اس جانِ مدعا کی
میری نگاہِ حسرت حیران ہو نہ جائے
میری طرف نہ دیکھو، اپنی نظر کو روکو
دنیائے عاشقی میں ہیجان ہو نہ جائے

مسرور بھی ہوں خوش بھی ہوں لیکن خوشی نہیں

مسرور بھی ہوں خوش بھی ہوں لیکن خوشی نہیں 
تیرے بغیر زیست تو ہے، زندگی نہیں 
میں دردِ عاشقی کو سمجھتا ہوں جان و روح 
کمبخت وہ بھی دل میں کبھی ہے، کبھی نہیں 
لا غم ہی ڈال دے مِرے دستِ سوال میں 
میں کیا کروں خوشی کو جو تیری خوشی نہیں 

بنے ہیں دشت میں دیوار و در وغیرہ بھی

بنے ہیں دشت میں دیوار و در وغیرہ بھی
ہمارے ساتھ ہے زعمِ سفر وغیرہ بھی
مِرے مدار میں وہ خوف سے اتر نہ سکے 
خلا میں لٹکے ہیں شمس و قمر وغیرہ بھی
یہ کس ستارے سے آئی ہے منظروں میں چمک 
دمک اٹھے ہیں مِرے بام و در وغیرہ بھی

لفظوں میں اپنے اشک پرو کر دکھاؤں گا

لفظوں میں اپنے اشک پِرو کر دکھاؤں گا 
میں شاعری سے درد کے سانچے بناؤں گا
چہرے سے اپنے گردِ ماہ و سال ایک دن 
جھاڑوں گا، آئینے کا تمسخر اڑاؤں گا
ہر کیفیت سے لطف اٹھانا ہے شام تک 
رو کر لکھوں گا ہنس کے تِرے گیت گاؤں گا

وہ خواب ٹوٹ گیا سازشیں نئی ہوئی ہیں

وہ خواب ٹوٹ گیا سازشیں نئی ہوئی ہیں
شکستگی سے یہ آنکھیں شکستہ بھی ہوئی ہیں
احد کے لطف پہ موقوف ہے کرم کی نظر 
وضاحتیں تو بہت آدمی نے دی ہوئی ہیں
ہماری آنکھ سے اشجار نم شگفتہ ہوئے 
ہمارے خون سے یہ ٹہنیاں ہری ہوئی ہیں

دیکھیے اور ابھی سامنے آتا کیا ہے

دیکھئے اور ابھی سامنے آتا کیا ہے
آئینہ دیکھنے والوں کو دکھاتا کیا ہے
ہم کو معلوم ہے پانی پہ کھڑی ہے دنیا
ڈوبنا سب کا مقدر ہے، ڈراتا کیا ہے
کیا عجب ہے کہ سفر تیرا سفارت بن جائے
لوٹ کے آنے کی امید میں جاتا کیا ہے

مری زندگی کا عجب بھاؤ ہے

مِری زندگی کا عجب بھاؤ ہے
خدا کی طرح سب کا برتاؤ ہے
کٹی ہیں پتنگیں تو لوٹی ہے ڈور
نہ جوجھو بہت اس میں الجھاؤ ہے
بڑی تلخ ہوتی ہے سرکار کی
گلے سے کلیجے تلک گھاؤ ہے

Wednesday 25 April 2018

بغاوت فرض ہوتی ہے

بغاوت فرض ہوتی ہے

سنو اندھو، سنو بہرو
بغاوت فرض ہوتی ہے
اپاہج، مردہ دل لوگو
بغاوت فرض ہوتی ہے

جہاں حاکم نہ ہو اللہ 
جہاں قانون ناں قرآں

سب گناہ و حرام چلنے دو

سب گناہ و حرام چلنے دو
کہہ رہے ہیں نظام چلنے دو
ضد ہے کیا وقت کو بدلنے کی
یونہی سب بے لگام چلنے دو
بے کسی بھوک اور مصیبت کا
خوب ہے اہتمام، چلنے دو

کیوں مرض لا دوا نہیں بنتا

کیوں مرض لادوا نہیں بنتا
تُو مری کیوں دوا نہیں بنتا
کیوں مرض لا دوا نہیں بنتا
میری جب تُو دعا نہیں بنتا
سب کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
کوئی اپنا سدا نہیں  بنتا

Wednesday 11 April 2018

یہ واعظ کا طرز بیاں اللہ اللہ

قطعہ

یہ واعظ کا طرز بیاں اللہ اللہ 
بلند اس کا آہنگ جو ہوتا رہے گا
بولے گا یوں جو حق ہمسائیگی پر
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا

انور مسعود

اگلے دن کچھ ایسے ہوں گے

اگلے دن کچھ ایسے ہوں گے 
چھلکے پھلوں سے مہنگے ہوں گے 
ننھی ننھی چیونٹیوں کے بھی 
ہاتھی جیسے سائے ہوں گے 
بھیڑ تو ہو گی لیکن پھر بھی 
سُونے سُونے رستے ہوں گے 

ختم ہو جائیں گے سب تکیے بھروسے ایک دن

لاریب ساعت

ختم ہو جائیں گے سب تکیے، بھروسے ایک دن
اک  فقط حسنِ عمل کا  آسرا رہ جائے گا
اس گھڑی کا خوف لازم ہے کہ انورؔ جس گھڑی
دھر لئے جائیں گے سب اور سب دھرا رہ جائے گا

انور مسعود

کہ دیسی گھی سے بھی بُو آنے لگی ہے

قطعہ

زرا سا سونگھ لینے سے بھی انورؔ 
طبیعت سخت متلانے لگی ہے
مہذب اس قدر میں ہو گیا ہوں
کہ دیسی گھی سے بھی بُو آنے لگی ہے 

انور مسعود

درمیاں گر نہ ترا وعدۂ فردا ہوتا

درمیاں گر نہ تِرا وعدۂ فردا ہوتا 
کس کو منظور یہ زہرِ غمِ دنیا ہوتا 
کیا قیامت ہے کہ اب میں بھی نہیں وہ بھی نہیں 
دیکھنا تھا تو اسے دور سے دیکھا ہوتا 
کاسۂ زخم طلب لے کے چلا ہوں خالی 
سنگ ریزہ ہی کوئی آپ نے پھینکا ہوتا 

وقت ہی اتنا لگا شام کی مسماری میں

وقت ہی اتنا لگا شام کی مسماری میں
صبح بھی خرچ ہوئی رات کی تیاری میں
کتنی مشکل سے ملی مجھ کو کلیدِ درِ چشم
اور اب دیکھا تو کچھ بھی نہیں الماری میں
اس کو تکنا تھا کہ آنکھوں کی تھکن ختم ہوئی
آخرش نیند مکمل ہوئی بیداری میں

سانس کی دھار ذرا گھستی ذرا کاٹتی ہے

سانس کی دھار ذرا گھِستی ذرا کاٹتی ہے
کیا درانتی ہے کہ خود فصلِ فنا کاٹتی ہے
ایک تصویر جو دیوار سے الجھی تھی کبھی
اب مِری نظروں میں رہنے کی سزا کاٹتی ہے
تیری سرگوشی سے کٹ جاتا ہے یوں سنگِ سکوت
جس طرح حبس کے پتھر کو ہوا کاٹتی ہے

زندگی گھٹنے کی رفتار بڑھی ہے کہ نہیں

زندگی گھٹنے کی رفتار بڑھی ہے کہ نہیں
یہ بتانے کے لیے کوئی گھڑی ہے کہ نہیں
شور سے محض خموشی ہی نہ ٹوٹی ہو گی
جانے کمرے میں کوئی چیز بچی ہے کہ نہیں
پیڑ کے کان میں اک بات کہی تھی میں نے
پھول بکھرے کہ نہیں، شاخ کٹی ہے کہ نہیں

Saturday 7 April 2018

جمہوریت؛ دس کروڑ انسانو

جمہوریت

دس کروڑ انسانو 
زندگی سے بیگانو
صرف چند لوگوں نے 
حق تمہارا چھینا ہے 
خاک ایسے جینے پر 
یہ بھی کوئی جینا ہے

کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم

کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم

یہ شعلہ نہ دب جاۓ یہ آگ نہ سو جائے
پھر سامنے منزل ہے ایسا نہ ہو کھو جائے
ہے وقت یہی یارو ہونا ہے جو ہو جائے
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم
ہر جابر و ظالم کا کرتے ہی چلو سر خم

تنہا اک دشت پر خطر میں ہوں​

جب تلک پیکرِ بشر میں ہوں
منقسم قدرِ خیر و شر میں ہوں
در بدر ٹھوکریں میں کھا کر بھی
دیکھ تیری ہی رہگزر میں ہوں
شعلہ بھڑکے تو روشنی مجھ سے
راکھ کا ڈھیر ہو، شرر میں‌ ہوں

زندگی بھر ایک ہو بس کاروبار

زندگی بھر ایک ہو بس کاروبار 
عشق ہو یا کار ہائے روزگار 
کر لیا ہوتا کسی سے میں نے پیار 
زندگی میری بھی ہوتی زرنگار
یادِ ماضی ناچتی ہے، اور میں
وقت کے نوٹوں کو کرتا ہوں نثار 

واسوخت وہ جسے اپنی ادا پر ناز تھا

واسوخت

وہ جسے اپنی ادا پر ناز تھا
(جانے کیا اُس کا بھلا سا نام تھا)
کہنے لگی
کیا تمہیں ادراک ہے
ساتھ میرا اور تمہارا ہے فقط کچھ دیر کا
پھر تم آخر تکتے رہتے ہو مجھے ہر وقت کیوں

Thursday 5 April 2018

جب ترے نین مسکراتے ہیں

جب تِرے نین مسکراتے ہیں
زیست کے رنج بھول جاتے ہیں
کیوں شکن ڈالتے ہو ماتھے پر
بھول کر آ گئے ہیں، جاتے ہیں
کشتیاں یوں بھی ڈوب جاتی ہیں
ناخدا کس لئے ڈراتے ہیں

رقص کرتا ہوں جام پیتا ہوں

رقص کرتا ہوں جام پیتا ہوں
عام ملتی ہے، عام پیتا ہوں
جھوٹ میں نے کبھی نہیں بولا
زاہدان کرام! پیتا ہوں
رخ ہے پر نور تو تعجب کیا
بادۂ لالہ فام پیتا ہوں

دل کو دل سے کام رہے گا

دل کو دل سے کام رہے گا 
دونوں طرف آرام رہے گا 
صبح کا تارا پوچھ رہا ہے 
کب تک دور جام رہے گا 
بدنامی سے کیوں ڈرتے ہو 
باقی کس کا نام رہے گا؟

آنکھوں سے تری زلف کا سایہ نہیں جاتا

آنکھوں سے تِری زلف کا سایہ نہیں جاتا 
آرام جو دیکھا ہے بھلایا نہیں جاتا 
اللہ رے نادان جوانی کی امنگیں
جیسے کوئی بازار سجایا نہیں جاتا 
آنکھوں سے پلاتے رہو ساغر میں نہ ڈالو 
اب ہم سے کوئی جام اٹھایا نہیں جاتا 

کوئی خواب ایسا دیکھو تعبیر گنگنائے

کوئی خواب ایسا دیکھو تعبیر گنگنائے
آزادئ وطن کی تصویر گنگنائے
سُونی پڑی ہے جنت سُر ہے نہ کوئی سرگم
کوئی ساز ایسا چھیڑو کشمیر گنگنائے
کب تک رہے گی وادی اغیار کے کرم پر
تدبیرایسی سوچوتقدیر گنگنائے

دریائے دل کے سارے پشتے ہیں سوگوار

دریاۓ دل کے سارے پشتے ہیں سوگوار
موجیں ہیں سر پٹختی دھارے ہیں سوگوار
شمس و قمر پریشاں ہیں امن آسماں کے
مدھم ہیں کہکشائیں، تارے ہیں سوگوار
ایثار کی دھنک کی رنگت اڑی اڑی ہے
سب کرنیں سرنگوں ہیں قطرے ہیں سوگوار

تیرے ہونٹوں پہ جو ہنسی پھیلے

تیرے ہونٹوں پہ جو ہنسی پھیلے
دل کی بستی میں تازگی پھیلے
سر جھکائے گزر گئیں صدیاں 
سر اٹھاؤ کہ روشنی پھیلے
پیچھے مڑ مڑ کے دیکھنے والو 
آگے دیکھو کہ آگہی پھیلے

نظروں سے گرے دل سے اتر کیوں نہیں جاتے

نظروں سے گرے دل سے اتر کیوں نہیں جاتے
حد ہو گئی، ہم حد سے گزر کیوں نہیں جاتے
وہ قبر نئی کس کی بنی ہے، یہ بتا دو؟ 
کیا بات ہے دانستہ اُدھر کیوں نہیں جاتے
اُکساتے ہو کیوں غوطہ لگانے پہ ہمیں تم
موتی ہو تو ساحل پہ بکھر کیوں نہیں جاتے

اچانک یوں کوئی بھولا ہوا سا خواب ملتا ہے

اچانک یوں کوئی بھولا ہوا سا خواب ملتا ہے
سمندر میں سفینہ جس طرح غرقاب ملتا ہے
نہ جانے کیوں تمہارے در پہ آ جاتا ہوں میں ورنہ
جہاں میں ہوں، سکوں میرے لیے بے تاب ملتا ہے
بڑی تیزی سے کشتی جس طرف بہتی چلی جائے
ہمیشہ یاد رکھنا اس طرف گرداب ملتا ہے

جس کا بدن ہے خوشبو جیسا جس کی چال صبا سی ہے

جس کا بدن ہے خوشبو جیسا جس کی چال صبا سی ہے 
اس کو دھیان میں لاؤں کیسے، وہ سپنوں کا باسی ہے 
پھولوں کے گجرے توڑ گئی آکاش پہ شام سلونی شام 
وہ راجا خود کیسے ہوں گے جن کی یہ چنچل داسی ہے 
کالی بدریا سیپ سیپ تو بوند بوند سے بھر جائے گا 
دیکھ یہ بھوری مٹی تو بس میرے خون کی پیاسی ہے 

یارو ہر غم غم یاراں ہے قریب آ جاؤ

یارو! ہر غم غمِ یاراں ہے قریب آ جاؤ 
پیارو! پھر فصلِ بہاراں ہے قریب آ جاؤ 
دور ہو کر بھی سنیں تم نے حکایاتِ وفا 
قرب میں بھی وہی عنواں ہے قریب آ جاؤ 
ہم محبت کے مسافر ہیں کہیں دیکھ نہ لے 
گھات میں گردشِ دوراں ہے قریب آ جاؤ 

بے طلب ایک قدم گھر سے نہ باہر جاؤں

بے طلب ایک قدم گھر سے نہ باہر جاؤں
ورنہ میں پھاند کے ہی سات سمندر جاؤں
دستانیں ہیں مکانوں کی زبانوں پہ رقم
پڑھ سکوں میں تو مکانوں سے بیاں کر جاؤں
میں منظم سے بھلا کیسے کروں سمجھوتا 
ڈوبنے والے ستاروں سے میں کیوں ڈر جاؤں

Saturday 31 March 2018

نہ دن ہیں اپنے نہ رات اپنی

نہ دن ہیں اپنے نہ رات اپنی
نہ ذات اب ہے یہ ذات اپنی
وہ آئے، بیٹھے، اٹھے، گئے وہ
تھی مختصر کیا حیات اپنی
تھی گفتگو سب نظر نظر میں 
تو کیا چھپاتا میں بات اپنی

جرم جب قابل سزا نہ رہا

جرم جب قابلِ سزا نہ رہا
ایک بھی شخص باوفا نہ رہا
دوست دشمن، برا بھلا نہ رہا
اب تماشا کوئی نیا نہ رہا
دو قدم کا بھی فاصلہ نہ رہا
پھر اچانک وہ سلسلہ نہ رہا

یہ نہ سمجھو خیال ہے میرا

یہ نہ سمجھو خیال ہے میرا
جو سناتا وہ حال ہے میرا
 ایسا گم ہوں میں اپنی دنیا میں
خود سے ملنا محال ہے میرا
جس کو سمجھا گیا عروج مرا
درحقیقت زوال ہے میرا

زندگی میں ذرا مزا ناں تھا

زندگی میں ذرا مزا ناں تھا
جب تِرا حادثہ ہوا ناں تھا
تو نے دیکھا ہے مجھ کو بکھرے ہوئے
میں تصادم زدہ سدا ناں تھا
میں ہوں وہ موڑ جو کہ رستوں سے
روز ہو کر جدا، جدا ناں تھا

Friday 30 March 2018

بہار آنے لگی

بہار آنے لگی
    
پھر بہار آئی، ہوا سے بوئے یار آنے لگی
پھر پپیہے کی صدا دیوانہ وار آنے لگی
پی کہاں کا شور اٹھا، حق سرّہ کا غُلغُل
کوئلیں کُوکیں، صدائے آبشار آنے لگی
کھیت جھومے، ابر مچلا، پھول مہکے، دل کھِلے
کونپلیں پھوٹیں، ہوائے مشکبار آنے لگی

محبت سے ڈرنا

محبت سے ڈرنا

نہ اہلِ خرد کی ملامت سے ڈرنا
نہ اہلِ جہاں کی شرارت سے ڈرنا
نہ دنیا کی فانی حکومت سے ڈرنا
نہ طاقت نہ قوت نہ حشمت سے ڈرنا
جو ڈرنا تو داغِ محبت سے ڈرنا

یوں ہم اس شوخ کو پہلو میں لئے بیٹھے ہیں

یوں ہم اس شوخ کو پہلو میں لیے بیٹھے ہیں
کوئی آئے تو یہ سمجھے کہ پیے بیٹھے ہیں
تم سے اظہار خیالات کریں یا مر جائیں
آج اس بات کا ہم عہد کیے بیٹھے ہیں
ضد دلانا جو ہے مقصود تبسم کو تِرے
ہم پھر آج اپنے گریباں کو لیے بیٹھے ہیں

اب کیا دیکھیں راہ تمہاری

بیت چلی ہے رات چھوڑو غم کی بات

فلمی گیت

اب کیا دیکھیں راہ تمہاری
بیت چلی ہے رات
چھوڑو
چھوڑو غم کی بات

مرے درد کو جو زباں ملے

گیت

مرے درد کو جو زباں ملے​
مرا درد نغمۂ بے صدا​
مری ذات ذرۂ بے نشاں​
مرے درد کو جو زباں ملے​
مجھے اپنا نام و نشاں ملے​

میں تیرے سپنے دیکھوں

میں تیرے سپنے دیکھوں

برکھا برسے چھت پر، میں تیرے سپنے دیکھوں​
برف گرے پربت پر، میں تیرے سپنے دیکھوں​
صبح کی نیل پری، میں تیرے سپنے دیکھوں​

کویل دھوم مچائے، میں تیرے سپنے دیکھوں​
آئے اور اُڑ جائے، میں تیرے سپنے دیکھوں​

ہم تو مجبور تھے اس دل سے

ہم تو مجبور تھے اس دل سے

ہم تو مجبور تھے اس دل سے کہ جس میں ہر دم
گردشِ خوں سے وہ کُہرام بپا رہتا ہے
جیسے رندانِ بلا نوش جو مل بیٹھیں بہم
مے کدے میں سفرِ جام بپا رہتا ہے
سوزِ خاطر کو ملا جب بھی سہارا کوئی
داغِ حرمان کوئی، دردِ تمنا کوئی

ہے گلوگیر بہت رات کی پہنائی بھی

ہے گلو گیر بہت رات کی پہنائی بھی
تیرا غم بھی ہے مجھے اور غمِ تنہائی بھی
دشتِ وحشت میں بجز ریگِ رواں کوئی نہیں
آج کل شہر میں ہے لالۂ صحرائی بھی
میں زمانے میں تِرا غم ہوں بہ عنوانِ وفا
زندگی میری سہی ہے تیری رسوائی بھی

وہ میری جان ہے دل سے کبھی جدا نہ ہوا

وہ میری جان ہے دل سے کبھی جدا نہ ہوا 
کہ اس کا غم ہی مِری زیست کا بہانہ ہوا 
نظر نے جھک کے کہا مجھ سے کیا دمِ رخصت 
میں سوچتا ہوں کہ کس دل سے وہ روانہ ہوا 
نمِ صبا، مئے مہتاب عطرِ زلفِ شمیم 
وہ کیا گیا کہ کوئی کارواں روانہ ہوا 

ہم گرچہ دل و جان سے بیزار ہوئے ہیں

ہم گرچہ دل و جان سے بے زار ہوئے ہیں
خوش ہیں کہ تِرے غم کے سزاوار ہوئے ہیں
اٹھے ہیں تِرے در سے اگر صورتِ دیوار
رخصت بھی تو جوں سایۂ دیوار ہوئے ہیں
کیا کہئے نظر آتی ہے کیوں خواب یہ دنیا
کیا جانیے کس خواب سے بیدار ہوئے ہیں

لاکھوں تھے کربلا میں جو موقع پرست لوگ

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

لاکھوں تھے کربلا میں جو موقع پرست لوگ
فتنہ پرست لوگ تھے، کینہ پرست لوگ 
پر جوش تھے کہ تازہ کلیجے چبائیں گے
بے تاب پھر رہے تھے وہ ہندہ پرست لوگ
جب گِھر گئے حسین جفاؤں کی دھوپ میں
شجرِ یزید میں رہے سایہ پرست لوگ

جو بھیڑیوں کے ہاتھ کتابوں کا قتل ہے

سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے شہداء کی یاد میں

جو بھیڑیوں کے ہاتھ کتابوں کا قتل ہے
انسانیت کے سارے نصابوں کا قتل ہے
ممکن نہیں بہار بھلائے کبھی اسے 
پھولوں کے شہر میں جو گلابوں کا قتل ہے
سنتی رہی جہاں کبھی تہذیب لوریاں
اس شہرِ دلربا میں ربابوں کا قتل ہے

خلق خدا ہے عاجز و مجبور آج تک

خلقِ خدا ہے عاجز و مجبور آج تک
نانِ جویں کی پہنچ سے ہے دور آج تک
ہر عہد کے غریب کی بیٹی کی مانگ میں
بھرتی رہی ہے چاندنی سیندور آج تک
کتنے مسیح آئے ہیں موسیٰ سے مارکس تک
بدلا نہیں ہے ظلم کا دستور آج تک

مجھے بات آگے بڑھانی نہیں ہے

مجھے بات آگے بڑھانی نہیں ہے
سمندر میں پینے کا پانی نہیں ہے
اٹھوں منہ اندھیرے چلوں سیر کو بھی
مِری صبح اتنی سہانی نہیں ہے
بڑا معجزانہ تھا انداز ان کا
کسی دور میں کوئی ثانی نہیں ہے

کیا رات کوئی کاٹ سکے رات کی طرح

کیا رات کوئی کاٹ سکے رات کی طرح
گھر میں بھرے ہیں لوگ حوالات کی طرح
یہ زندگی کہ جس کا کوئی اور ہے نہ چھور
ہم سب میں بٹ گئی ہے کرامات کی طرح
یہ دور، شکر ہے کہ بڑی مدتوں کے بعد
الجھا ہوا ہے میرے خیالات کی طرح

مجھے چند باتیں بتا دی گئیں

مجھے چند باتیں بتا دی گئیں
سمجھ میں نہ آئیں تو لادی گئیں
مسائل کی تہہ تک نہ پہنچا گیا
مصائب کی فصلیں اُگا دی گئیں
بڑا شور گونجا، بڑا شر اٹھا
رگیں دُکھ رہی تھیں ہلا دی گئیں

Wednesday 28 March 2018

اب عشق رہا نہ وہ جنوں ہے

اب عشق رہا نہ وہ جنوں ہے 
طوفان کے بعد کا سکوں ہے 
احساس کو ضد ہے دردِ دل سے 
کم ہو تو یہ جانیے فزوں ہے 
راس آئی ہے عشق کو زبونی 
جس حال میں دیکھیے زبوں ہے 

کون سمجھے عشق کی دشواریاں

کون سمجھے عشق کی دشواریاں 
اک جنوں اور لاکھ ذمہ داریاں 
اہتمام زندگی عشق دیکھ 
روز مر جانے کی ہیں تیاریاں 
عشق کا غم وہ بھی تیرے عشق کا 
کون کر سکتا مِری غم خواریاں 

سر جس پہ نہ جھک جائے اسے در نہیں کہتے

سر جس پہ نہ جھک جائے اسے در نہیں کہتے
ہر در پہ جو جھک جائے اسے سر نہیں کہتے
کیا اہلِ جہاں تجھ کو ستم گر نہیں کہتے
کہتے تو ہیں لیکن تِرے منہ پر نہیں کہتے
کعبے میں مسلمان کو کہہ دیتے ہیں کافر
بت خانے میں کافر کو بھی کافر نہیں کہتے

Tuesday 27 March 2018

اب کوئی نہیں بہر تماشہ سر مقتل

اب کوئی نہیں بہرِ تماشا سرِ مقتل
جز قاتل جاں، وہ بھی ہے تنہا سر مقتل
اس شہر میں جب قحط پڑا دلزدگاں کا
کیا کیا نہ اڑی خاکِ تمنا سر مقتل
ہم تھے تو اجالوں کا بھرم بھی تھا ہمیں سے
کہتے ہیں کہ پھر چاند نہ ابھرا سر مقتل

وسعت چشم تر بھی دیکھیں گے

وسعتِ چشمِ تر بھی دیکھیں گے
ہم تجھے بھول کر بھی دیکھیں گے
زخم پر ثبت کر نہ لب اپنے
زخم کو چارہ گر بھی دیکھیں گے
ہجر کی شب سے حوصلے اپنے
بچ گئے تو سحر بھی دیکھیں گے

عجب ہیں راستے میرے کہ چلنا بھی نہیں ممکن

عجب ہیں راستے میرے کہ چلنا بھی نہیں ممکن
ذرا ٹھوکر جو لگ جائے، سنبھلنا بھی نہیں ممکن
تِرا چہرہ میری نظروں میں دھندلا سا نہ ہو جائے
کہ اب بھیگی ہوئی پلکوں کو ملنا بھی نہیں ممکن
ملے ہیں بعد مدت کے بلا کے سرد ہیں لہجے
کہ جلنا بھی نہیں ممکن، پگھلنا بھی نہیں ممکن

Friday 23 March 2018

سیف الملوک جھیل سے داسو سے عشق ہے

سیف الملوک جھیل سے داسو سے عشق ہے
دیبل سے ہم کو پیار ہے کے ٹو سے عشق ہے
دھرتی کا ایک ایک ہے ٹکڑا ہمیں عزیز 
سیدو، قصور، کوٹری، دادو سے عشق ہے
پشتو، شنا، کھووار، ہو سندھی، سرائیکی
صدیوں سے ہر زبان کو اردو سے عشق ہے

آسماں ٹوٹا ہوا ہے بیٹھ جا

آسماں ٹوٹا ہوا ہے بیٹھ جا
دل مرا دریا ہوا ہے بیٹھ جا
اس قدر تاخیر سے آیا ہے کیوں؟
دل مرا بیٹھا ہوا ہے بیٹھ جا
حسن کا کرتی ہیں موجیں احترام
کچا پکا جو گھڑا ہے بیٹھ جا

پھر ایک بار دل خوش گمان بیٹھ گیا

پھر ایک بار دلِ خوش گمان بیٹھ گیا
زمین بیٹھ گئی،. آسمان بیٹھ گیا
حصار کھینچا مِرے گرد جب بلاؤں نے
تو آسمان کہیں درمیان بیٹھ گیا
چمن سے سولہ دسمبر کی جب ہوا گزری
گلاب بیٹھ گئے, باغبان بیٹھ گیا

ہر گئی بات سے نکلتے ہیں

ہر گئی بات سے نکلتے ہیں
اختلافات سے نکلتے ہیں
شعر شطرنج تو نہیں پیارے 
جیت اور مات سے نکلتے ہیں
رد روایات ترک کرتے ہیں 
آؤ کھنڈرات سے نکلتے ہیں

Thursday 22 March 2018

یہ جو سائے ستا رہے تھے مجھے

یہ جو سائے ستا رہے تھے مجھے
کس لیے آزما رہے تھے مجھے
خود ہی منظر سے ہٹ گئے ہو تم 
راستے سے ہٹا رہے تھے مجھے
اپنے اندر جو جھانک کر دیکھا 
کتنے ہی درد کھا رہے تھے مجھے

لفظ بکھرے تو حقیقت کی طرف داری کی

لفظ بکھرے تو حقیقت کی طرفداری کی 
آئینہ توڑ دیا،۔۔۔۔ اور عزاداری کی
اے شب ہجر! گزر جا کہ دمِ رخصتِ خواب 
میری آنکھوں میں کھٹکتی ہے تیری تاریکی
دل نے بازارِ تمنا سے پری کی خاطر 
پھول ہی پھول چنے جب بھی خریداری کی

مجھے تو اب بھی یاد ہے گئے دنوں میں کیا ہوا

مجھے تو اب بھی یاد ہے گئے دنوں میں کیا ہوا 
وہ کشتیاں جلی ہوئیں، وہ قافلہ لٹا ہوا
فقیر کی دعا ہوں میں الست کی صدا ہوں میں 
سنو گے ایک دن مجھے لبوں پہ ہوں رکا ہوا
مثالِ وصل دی گئی زمیں کو فصل دی گئی 
اک اور نسل دی گئی بدن سے رابطہ ہوا

ابھی گناہ کا موسم ہے آ شباب میں آ

ابھی گناہ کا موسم ہے، آ! شباب میں آ
نشہ اترنے سے پہلے مِری شراب میں آ
دھنک سی خواب سی خوشبو سی پھر برس مجھ پر
نئی غزل کی طرح تُو مِری کتاب میں آ
اٹھا نہ دیر تک احسان موسمِ گل کا
میں زندگی ہوں مجھے جی، مِرے عذاب میں آ

وعدہ وصل ہے لذت انتظار اٹھا

وعدۂ وصل ہے لذتِ انتظار اٹھا 
اور پھر عمر بھر اک غمِ اعتبار اٹھا 
اس کا غم میرے دل میں ہے اب بانسری کی طرح 
نغمۂ درد سے زخمۂ اختیار اٹھا 
میں اٹھا تو فلک سے بہت چاند تارے گرے 
اور صحرائے جاں میں بہت غم غبار اٹھا 

کسی کسی کا غزل احترام کرتی ہے

کسی کسی کا غزل احترام کرتی ہے
وگرنہ دور سے سب کو سلام کرتی ہے
زبانِ یار کی عشوہ طرازی دیکھو گے
یہ وہ بلا ہے جو کم کم خرام کرتی ہے
ہم ایسے سہل طلب کیا زباں دراز کریں
زبانِ خاص حقیقت کو عام کرتی ہے

حسین خواب نہ دے اب یقین سادہ دے

حسین خواب نہ دے اب یقین سادہ دے 
مِرے وجود کو یا رب! نیا لبادہ دے 
غمِ حیات کو پھیلا دے آسمانوں تک 
دلِ تباہ کو وسعت بھی کچھ زیادہ دے 
مجھے قرار نہ دے تو پس غبار نفس 
میں شہ سوار ہوں میدان بھی کشادہ دے 

Wednesday 21 March 2018

جو لے کے ان کی تمنا کے خواب نکلے گا

جو لے کے ان کی تمنا کے خواب نکلے گا 
بہ عجزِ شوق بہ حالِ خراب نکلے گا 
جو رنگ بانٹ کے جاتا ہے تنکے تنکے کو 
عدو زمیں کا یہی آفتاب نکلے گا 
بھری ہوئی ہے کئی دن سے دھند گلیوں میں 
نہ جانے شہر سے کب یہ عذاب نکلے گا 

جبیں کی دھول جگر کی جلن چھپائے گا

جبیں کی دھول جگر کی جلن چھپائے گا
شروعِ عشق ہے، وہ فطرتاً چھپائے گا
دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن
اس آگ کو نہ تیرا پیراہن چھپائے گا
تِرا علاج شفاگاہ عصرِ نَو میں نہیں
خِرد کے گھاؤ تو دیوانہ پن چھپائے گا

وفائیں کر کے جفاؤں کا غم اٹھائے جا

وفائیں کر کے جفاؤں کا غم اٹھائے جا 
اسی طرح سے زمانے کو آزمائے جا 
کسی میں اپنی صفت کے سوا کمال نہیں 
جدھر اشارۂ فطرت ہو سر جھکائے جا 
وہ لو رباب سے نکلی دھواں اٹھا دل سے 
وفا کا راگ اسی دھن میں گنگنائے جا 

اگرچہ خلد بریں کا جواب ہے دنیا

اگرچہ خلدِ بریں کا جواب ہے دنیا
مگر خدا کی قسم ایک خواب ہے دنیا
سحر پیامِ تبسم ہے، شام اذنِ سکوت
شگوفہ زار کا فانی شباب ہے دنیا
لرز رہی ہے فضا میں صدائے غم پرور
ترنماتِ فنا کا رباب ہے دنیا

Tuesday 20 March 2018

ایک وہم کا ازالہ

ایک وہم کا ازالہ

تم برا نہ مانو تو
ایک بات کہتا ہوں
یہ جو وہم ہے تم کو
سب خرید سکتے ہو
جسم، زلف، آنکھیں اور
لب خرید سکتے ہو

وہ حشر خیز عنایات پر اتر آیا

وہ حشر خیز عنایات پر اتر آیا
بلا کا رنگ ہے اور رات پر اتر آیا
میں خود اداس کھڑا تھا کٹے درخت کے پاس
پرندہ اڑ کے مِرے ہاتھ پر اتر آیا
وہ مجھ سے توڑنے والا ہے پھر کوئی وعدہ
وہ پھر سیاسی بیانات پر اتر آیا

حسن کندن ہے ترا اور نکھر جائے گا

حسن کندن ہے تِرا اور نکھر جائے گا
جب جوانی کا حسیں دور گزر جائے گا
تُو مِرے دل سے دبے پاؤں نکل جائے تو کیا
میرے ہاتھوں کی لکیروں سے کدھر جائے گا؟
نام لکھتا ہے مِرا اپنی ہتھیلی پہ مگر
میں نے پوچھا تو کھڑے پاؤں مُکر جائے گا

ہم ایسے لوگ شیشے میں اتر جاتے ہیں دلدارا

ہم ایسے لوگ شیشے میں اتر جاتے ہیں دلدارا
چھنک کر ٹوٹ جاتے ہیں، بکھر جاتے ہیں دلدارا
ہر ا رہتا ہے دنیا میں ہر اِک پودا محبت کا
جہاں تک شاخ جاتی ہے ثمر جاتے ہیں دلدارا
ہمارے دل کی چنگاری کو بس اک پھونک کافی ہے
زیادہ سانس لے کوئی تو ڈر جاتے ہیں دلدارا

Monday 5 March 2018

میں لپٹتا رہا ہوں خاروں سے

میں لِپٹتا رہا ہوں خاروں سے 
تم نے پوچھا نہیں بہاروں سے 
چاندنی سے سحاب پاروں سے 
جی بہلتا ہے یادگاروں سے 
آ مِرے چاند، رات سُونی ہے 
بات بنتی نہیں ستاروں سے 

کیا ڈھونڈنے آئے ہو نظر میں

کیا ڈھونڈنے آئے ہو نظر میں
دیکھا ہے تمہِیں کو عمر بھر میں
معیارِ جمال و رنگ و بُو تھے
وہ جب تک رہے میری چشم تر میں
اب خواب و خیال بن گئے ہو
اب دل میں رہو، رہو نظر میں

محبت فیصلہ ہے اک نظر کا

محبت فیصلہ ہے اِک نظر کا
اگرچہ دردِ دل ہے عمر بھر کا
وہی آنسو دوائے دردِ دل ہے
جو آئینہ ہے رنگِ چارہ گر کا
تِرے دَر کی تمنا، اللہ! اللہ
پتہ پوچھا کئے ہم اپنے گھر کا

گزر رہے ہیں برابر تباہیوں کے جلوس

سوالی

گزر رہے ہیں برابر تباہیوں کے جلوس 
یہ زندگی کے مسافر کہاں چلے جائیں 
یہ اشتہار غموں کے الم کی تصویریں 
یہ زندگی ہے نہیں گرد زندگی بھی نہیں 
جواں امیدیں فضائے حیات سے مایوس 
تنورِ سینہ کا ایندھن ہیں وہ تمنائیں 

Friday 2 March 2018

خون دل سے لکھی ہے ساری غزل

کیوں نہ سرسبز ہو ہماری غزل
خونِ دل سے لکھی ہے ساری غزل
جتنی پیاری ہے تیری یاد مجھے
لب پہ آتی ہے ویسی پیاری غزل
سالہا سال رنج کھینچے ہیں
میں نے شیشے میں جب اتاری غزل

کنج کنج نغمہ زن بسنت آ گئی

کُنج کُنج نغمہ زن، بسنت آ گئی
اب سجے گی انجمن، بسنت آ گئی
اڑ رہے ہیں شہر میں پتنگ رنگ رنگ
جگمگا اٹھا گگن، بسنت آ گئی
موہنے لبھانے والے پیارے پیارے لوگ
دیکھنا چمن چمن، بسنت آ گئی

Thursday 1 March 2018

ہے حقیقت عذاب رہنے دو

ہے حقیقت عذاب، رہنے دو
ٹوٹ جائے گا خواب، رہنے دو
تم جلا دو کتابِ ہستی کو
اک محبت کا باب، رہنے دو
اب اتارو زمیں پہ چاند کوئی
یا انہیں بے نقاب رہنے دو