Saturday, 7 April 2018

تنہا اک دشت پر خطر میں ہوں​

جب تلک پیکرِ بشر میں ہوں
منقسم قدرِ خیر و شر میں ہوں
در بدر ٹھوکریں میں کھا کر بھی
دیکھ تیری ہی رہگزر میں ہوں
شعلہ بھڑکے تو روشنی مجھ سے
راکھ کا ڈھیر ہو، شرر میں‌ ہوں
کچھ یقیناً نشے میں بک بیٹھا
اب کھٹکتا جو ہر نظر میں ہوں
کھویا کھویا سا میں جو رہتا ہوں
کیا محبت کے اب اثر میں ہوں؟
شیخ و ساقی کو ساتھ جب دیکھا
نہ اِدھر میں نہ اب اُدھر میں ہوں
شہر کے شور و غل سے گھبرا کر
بند بیٹھا اکیلا گھر میں ہوں
منزلوں سے مجھے ہو کیا نسبت
میں تو اِک دائمی سفر میں ہوں
ظلمتوں میں ضمیر کو لے کر
تنہا اِک دشتِ پُر خطر میں ہوں​

اویس ضمیر

No comments:

Post a Comment